محل تبلیغات شما

اللھم عجل لولیک الفرج



امام عسکری علیہ السلام اور حضرت حجت کی غیبت کے سلسلے میں تین خاص کارنامے

امام حسن عسکری علیہ السلام کا اہم ترین کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے امام عصر حجت ابن الحسن العسکری عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّریف کی غیبت اور ظہور کے لئے ماحول فراہم کیا۔امام حسن عسکری علیہ السلام نے دشمن کی شدید نگرانی میں امام عصر(عج) کی غیبت کے سلسلے میں تین خصوصی کارنامے سرانجام دیئے: عوام کو غیبت کے زمانے میں اپنے امور کے انتظام کے لئے تیار کرنا؛ غیبت کے زمانے میں امام معصوم کی موجودگی کا اثبات اور شیعیان اہل بیت کو امام مہدی عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشریف کا بطور امام دوازدہم، تعارف کرانا۔ 


امـــام کــا وجـــود

حضرت امام مہدی علیہ السلام فرماتے ہیں: إنّا غَیرُ مُهمِلینَ لِمُراعاتِكُم ولا ناسین لِذِكرِكُم و لَولا ذلِكَ لَنَزلَ بِكُم اللّأْواءُ وَاصطَلَكُمُ الأَعداءُ.

 ہم تمہاری حالت اور تمہارے ذکر سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں ہوتے ہیں اگر ہماری نظر عنایت تم پہ نہ ہوتی تو تمہیں بلائیں اور دشمن چاروں طرف سے گھیر کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے۔  امام کے وجود سے ہم بلاؤں سے محفوظ ہیں امام کا وجود ہے جو ہمیں بلاؤں سے محفوظ رکھے ہوئے ہے چاہے وہ بلائے آسمانی ہو یا زمینی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ’’اے میرے رسول جب تک آپ امت کے درمیان ہیں میں امت پر عذاب نازل نہیں کر سکتا ہوں‘‘۔ (انفال، ۳۳)

 اگر امام کی نظر عنایت نہ ہوتی تو دشمن ہمیں چور چور کر دیتے ہمارا وجود امام کی وجہ سے باقی ہے۔(بحـــار الانــوار، جـــ ٥٣، صـــ ٧٢)


حضرت فاطمہ زہرا (س) ، پیغمبر اسلام اور حضرت خدیجہ کے اخلاق و صفات کا آئینہ

حضرت فاطمہ زہرا(س) جود و سخا اور اعلیٰ افکارمیں اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے باپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آئینہ دار تھیں۔  حضرت فاطمہ زھرا(س) جود و سخا اور اعلیٰ افکارمیں اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے باپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آئینہ دار تھیں۔ آپ کا نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا ، سیدۃ النساء العالمین ، راضیۃ ، مرضیۃ ، شافعۃ، صدیقہ ، طاھرہ ، ذکیہ،خیر النساء اور بتول ہیں۔ آپ کی مشہور کنیت ام الآئمۃ ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ہے، یعنی اپنے باپ کی ماں ، یہ لقب اس بات کا مظہرہے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاہتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا ۔ کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ہیں لہذااس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدابھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ہی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے  رشد  پایا ، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا کو ابتریت کے طعنہ سے نجات دلائی۔بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


 ولایت فقیہ اور دشمن شناسی

عین ممکن ہے کہ ولی فقیہ ایک خاص سرزمین پر اس سرزمین پر لاگو نظام، حکومت یا آئین کے اعتبار سے کسی "اجرائی" ذمہ داری کا حامل نہ ہو اسکے باوجود اس سرزمین پر بسنے والے مسلمانوں اور انسانوں کی نظریاتی اور اسلامی فکری ہدایت "ولی فقیہ" کی ذمہ داری ہے ۔دشمن شناسی میں ایک اہم سوال یہ پیش آتا ہے کہ دشمن شناسی کا معیار اور ملاک کیا ہے؟ یہ بہت اہم سوال ہے، جس کو صحیح انداز سے درک کرنے اور اس کا صحیح انداز میں جواب دینے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو واضح کرنے کیلئے ہم ایک مثال کے ذریعے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں کہ جب کبھی کوئی شخص مریض ہوتا ہے تو وہ اپنے علاج معالجے کیلئے کسی طبیب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ طبیب اس شخص کی مرض کو تشخیص دیتا ہے اور اس تشخیص کی بنیاد پر اس کا علاج معالجہ شروع کر دیتا ہے۔ اگر اس طبیب کی تشخیص صحیح ہو تو نسخہ میں دی جانے والی ادویات کے بروقت استعمال سے مرض سے نجات حاصل ہو جاتی ہے اور اگر تشخیص صحیح نہ ہو تو جتنی دوائیں بھی استعمال کی جائیں، اصل مرض لاحق رہتا ہے اور اس سے چھٹکارہ نصیب نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی فرد کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہو جائے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اچھے سے اچھے طبیب یا حاذق ڈاکٹر سے مرض کی تشخیص کروائی جائے اور احتیاط کا ضابطہ یہ ہے کہ چند ایک اطباء سے اس بارے میں مشورہ کیا جانا چاہیئے، تاکہ مرض کی صحیح تشخیص ممکن ہو۔ بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


خلاصہ: حجاب ،اسلام کی ترقی یافتہ تہذیب سے جدا نہ ہونے والا جزء ہے اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ مسلمان عورت کو(کسی بھی وجہ سے) اس دینی تہذیب کو چھوڑنے پر مجبور کرے ۔
مقدمہ
١٣١٤ ہجری شمسی کے چوتھے مہینہ کی ٢١ تاریخ کو ایران کے شہر مشہد مقدس کی مسجد گوہر شاد میں حجاب کے خلاف لوگوں پر ظلم و ستم کیا گیا اور ان کا خون بہایا گیا تھا ، اسی وجہ سے اس دن کو حجاب اور عفاف کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، لہذا اسلامی نظام میں حجاب اورعفاف کو جاری کرنے کی خصوصیات زیادہ سے زیادہ آشکار ہوجاتی ہیں، اسی وجہ سے اس مقالہ میں مرجع عالی قدر حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کے نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے معاشرہ میں اسلامی حجاب و عفاف کی خصوصیات اور اس کے تجزیہ کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
پہلے مرحلہ میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کے نظریہ کے مطابق یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام کی ترقی یافتہ تہذیب میں حجاب ،اسلام سے جدا نہیں ہوسکتا ،کیونکہ اسلام میں حجاب کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور حجاب کے سلسلہ میں متعدد آیات نازل ہوئی ہیں اور کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا اور آیات حجاب کے متعلق غلط توجیہات کو بھی قبول نہیں کیا جاسکتا ہے (١)۔
لہذا حجاب کے متعلق مسجد گوہر شاد میں رضا خان کے جرائم کے المیہ کے بعد کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی اور بہت ہی آسانی اور سادگی سے اس کو نظرانداز  نہیں کیا جاسکتا (٢)۔ اسی وجہ سے معظم لہ نے رضا خان کے جرائم کو مدنظر رکھتے ہوئے تاجیکستان میںحجاب کے خلاف قدم بڑھانے کے متعلق اس ملک کے صدر کو دوستانہ طور پر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ہے : ہم نے رضا خان کے زمانہ میں اس کام کا تجربہ کیا ہے، وہ بھی حجاب کی مخالفت کرتا تھا اور عورتوں کے سروں سے چادر اتار لیتا تھا ، یہاں تک کہ اس نے مسجد گوہر شاد میں بہت سے لوگوں کو شہید بھی کیا ، لیکن لوگوں نے اس کی بات کو قبول نہیں کیا اور انہوں نے رضا خان کے خلاف قیام کیا اور اصل حجاب کو اپنے ملک میں دوبارہ عملی جامہ پہنایا (٣)۔
لہذا بہتر یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ حجاب کے متعلق اپنے شرعی وظائف کو انجام دیں، اصل حجاب ایسی چیز نہیں ہے جس سے انکار کیا جائے، یا مسلمانوں کو اس سے جدا کر دیا جائے (٤)۔
کیونکہ قرآن مجید کے مطابق مسلمان ، حجاب کے پابند ہیں بلکہ قرآن مجید میں حجاب کے متعلق بہت سی آیات آموجود ہیں اوران کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی نشانیوں کا ایک جزء ہے (٥)۔
اس بناء پر راقم الحروف نے بھی معظم لہ کی تقاریر کے بعض اہم حصوں کو اس مقالہ میں جمع کیا ہے تاکہ حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کے بلند و بالا نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے حجاب اور عفاف کو عملی جامہ پہنانے کے مخلف ابعاد کا تجزیہ اور تحلیل کی جائے اور پھر اس کے نتائج کو قارئین گرامی کے سامنے پیش کیا جائے :بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں
امام علی علیہ السلام کی شہادت کا تذکرہ یہودی کتابوں میں

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: خداوند عالم پیغمبروں کے جانشینوں کی پیغمبروں کے دور حیات میں سات مقام پر آزمائش کرتا ہے تاکہ ان کی اطاعت و بندگی کو جانچ سکے اور اگر وہ ان مراحل میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پیغمبروں کو حکم دیتا ہے کہ جب تک زندہ ہیں ان کو اپنا معاون و مددگار قرار دیں اور جب دنیا سے اٹھ جائیں تو انہیں اپنا جانشین بنا کر جائیں اور تمام امتوں کو پیغمبروں کی اطاعت کے زیر سایہ ان کے جانشینوں کی اطاعت کا حکم دیتا ہے۔ بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


مہدویت اور عیسائی صہیونیت

عیسائیت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک انتظار” ہے جو اسلام اور عیسائیت کے درمیان ایک مشترکہ عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں پروردگار عالم مومنین کی نسبت یہودیوں کی دشمنی کو بدترین دشمنی قرار دیتا ہے وہاں عیسائیوں کو اسلام سے نزدیک گردانتا ہے۔ بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


حقیقتِ انتظار اور اسکے تقاضے

تم میں سے ہر ایک ہمارے قائم کے خروج کے لئےآمادہ رہے چاہے وہ ایک تیر کو مہیہ کرنے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو چونکہ جب خدا یہ دیکھے گا کہ انسان نے مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی نصرت کی نیت سے اسلحہ مہیہ کیا ہے تو امید ہے کہ خدا اسکی عمر کو طولانی کر دے کہ وہ ظہور کو درک کر لے اور امام مہدی علیہ السلام کے یاور و مددگاروں میں قرار پائے۔ بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


کس طرح چشم بد کو دورکیا جاسکتا هے؟

قرآن مجید کی سی آیت چشم بد کو دور کر نے میں مفید هے ؟

ایک مختصر

چشم زخم یا چشم بد نفسانی اثرات کا نتیجه هے که اس سے انکار کر نے کی کوئی دلیل موجود نهیں هے، بلکه بهت سے ایسے واقعات دیکهے گئے هیں جو چشم بد سے مربوط هیں-بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


بسم الله الرحمن الرحیم سے پهلے "اعوذ با لله من لشیطان الرجیم" کیوں پڑھا جاتا هے؟

قرآن مجید کے سے سوره میں آیا هے که " اعوذ با لله منالشیطان الرجیم" کو" بسم الله الرحمن الرحیم" سے پهلے پڑھنا چاهئے ؟

ایک مختصر

قرآن مجید کى آیات اور روایات کے مطابق قرآن مجید کى تلاوت کے آداب میں سے ایک ، قرآن مجید کى تلاوت سے پهلے " اعوذ با لله من لشیطان الرجیم" کا پڑھنا هے، حتى اسے بسم الله الرحمن الرحیم سے پهلے پڑھنا چاهئے ، اس وجه سے که بسم الله الرحمن الرحیم قرآن مجید کا جزو هےـ البته یه پناه لینا صرف لفظ اور کهنے تک محدود نهیں هونا چاهئے بلکه یه دل و جان کى گهرایئوں تک اثر کرنا چاهئے اور تلاوت کى پورى مدت کے دوران یه حالت پر قرار رهنى چاهئے ـبقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت امیر المومنین علیہ السلام کی نگاہ میں

شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہااتنا بڑا غم تھا کہ علی ع جیسا صابر انسان بھی تڑپ اٹھا اور فرمایا : آپکی دوری مجھ پر گراں گزرے گی لیکن اس سے کوئی گریز نہیں ہے خدا کی قسم آپ کے جانے سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کی مصیبت تازہ ہو گئیبقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عالم تشیع کی نہایت گرانقدر اور والا مقام خاتون ہیں جن کا علمی مقام بہت اونچا ہے

والدین ماجدین

آپ کے والد ماجد ساتویں امام باب الحوائج حضرت موسیٰ بن جعفر علیہما السلام اور مادر گرامی نجمہ خاتون ہیں جو امام رضا علیہ السلام کی بھی والدہ ماجدہ ہیں۔ (1)

ولادت تا ہجرت

حضرت معصومه سلام الله علیها (2) نے پہلی ذی القعدہ ۱۷۳ ء ھ میں مدینہ منورہ کی سرزمین پر اس جہان میں قدم رنجہ فرمایا اور ۲۸ سال کی مختصر سی زندگی میں دس ۱۰ (3) یا بارہ۱۲ (4) ربیع الثانی ۲۰۱ ھ میں شہر قم میں اس دار فانی کو وداع کہہ دیا۔اس عظیم القدر سیدہ نے ابتدا ہی سے ایسے ماحول میں پرورش پائی جہاں والدین اور بہن اور بھائی سب کے سب اخلاقی فضیلتوں سے آراستہ تھے۔ عبادت و زہد، پارسائی اور تقوی، صداقت اور حلم، مشکلات و مصائب میں صبر و استقامت، جود و سخا، رحمت و کرم، پاکدامنی اور ذکر و یاد الہی، اس پاک سیرت اور نیک سرشت خاندان کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ سب برگزیدہ اور بزرگ اور ہدایت و رشد کے پیشوا، امامت کے درخشان گوہر اور سفینہ بشریت کے ہادی و ناخدا تھے۔

علم و دانش کا سرچشمہ

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے ایسے خاندان میں پرورش پائی جو علم و تقوی اور اخلاقی فضایل کا سرچشمہ تھا۔ جب آپ سلام اللہ علیہا کے والد ماجد حضرت موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ(ع) کے فرزند ارجمند حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی سرپرستی اور تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھایا۔ امام رضا علیہ السلام کی خصوصی توجہات کی وجہ سے امام ہفتم کے سارے فرزند اعلی علمی اور معنوی مراتب پر فائز ہوئے اور اپنے علم و معرفت کی وجہ سے معروف و مشہور ہوگئے۔

ابن صباغ ملکی کہتے ہیں: "ابوالحسن موسی المعروف (کاظم)۔ کے ہر فرزند کی اپنی ایک خاص اور مشہور فضیلت ہے"۔بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی زندگی پر ایک نظر

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھپھو ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ھجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 3 ھجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ ممتاز عالم دین شیخ عباس قمی اس بارے میں لکھتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت امام موسی کاظم علیہ السلام تھیں جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں"۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام ھشتم علی رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


عقیدہ مہدویت کے مسلم الثبوت ہونے پر صدر اسلام کے مسلمانوں میں اجماع واضح اور بلا شبہ ہے
اجماع مسلمین سے مرادصرف اجماع شیعہ نہیں ہے کیونکہ یہ واضحات میں سے ہے اورسب جانتے ہیں کہ عقیدہ وجو دوظہور امام مہدی(عج) اصول وضروریات مذہب شیعہ اثنا عشری میں سے ہے جس میں کوئی بحث کی گنجائش نہیں ۔ بلکہ اجماع مسلمین سے مراد اجماع شیعہ و اہل سنت ہے رسول اللہ کی وفات کے بعد صحابہ و تابعین کے درمیان عقیدہ مہدی(عج) مسلم تھا اورظہور حضرت امام مہدی (عج) کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں تھا، اسی طرح قرن اول کے بعد سے لے کر چودہوں صدی ہجری تک آپ کے ظہور کے سلسلے میں بھی تمام مسلمانوں کے درمیان اتفاق تھا ، اوراگر کوئی ان احایث کی صحت اوران کے رسول خدا سے صادر ہونے کے بارے میں شک یاتردد کرتے تو اس شخص کی ناواقفیت پر حمل کرتے تھے ، یہی وجہ ہے آج تک تاریخ اسلام میں جھوٹے اور جعلی مہدیوں کی رد میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ عقیدہ ہی باطل ہے ، بلکہ حضرت مہدی(عج) کے اوصاف اور علامتوں کے نہ ہونے کے ذریعے رد کیا ہے ۔بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

قافلہ بشریت نے ہر زمانے میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ مظلوم کے سر کو تن سے جد ا کر دینے کے بعد بھی ارباب ظلم کو چین نہیں ملتا بلکہ انکا سارا ہم و غم یہ ہوتا ہے کہ دنیا سے مظلوم اور مظلومیت کا تذکرہ بھی ختم ہو جائے ، اس سعی میں کبھی ورثا ء کو ظلم کا نشانہ بنا یا جاتا ہے تو کبھی مظلومیت کا چرچہ کرنے والو ں کی مشکیں کسی جاتی ہیں مگر اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آخری چارہ کار کے طور پر مظلوم کی نشانی یعنی تعویذ قبر کو بھی مٹا دیا جاتا ہے ، تاکہ نہ علامت باقی رہیگی اور نہ ہی زمانہ ، ظلم و ستم کو یاد کرے گا ّ۔یہ سلسلہ روز ازل سے جاری و ساری ہے ؛مگر جس کر و فر سے اس ظالمانہ روش کو اختیار کیا گیا اسی شدت سے مظلومیت میں نکھار پیدا ہوتا گیا اور پھر سلسلہ مظالم کی یہ آخری کڑی ہی ظالم کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوئی جس کے بعد ظلم و ظالم دونوں ہی فنا ہو گئے ، اس کی جیتی جاگتی مثال کرب و بلا ہے جہاں متعدد د فعہ سلاطین جور نے سید الشھداء حضرت امام حسین کے مزار کو مسمار کرنا چاہا مگر آج بھی اس عظیم بارگاہ کی رفعت باقی ہے جبکہ اس سیاہ کاری کے ذمہ داروں کا نام تک صفحہ ہستی سے پوری طرح مٹ چکا ہے ۔بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

مہدویت کا نظریہ تمام ادیان میں پایا جاتا ہے، خواہ وہ الٰہی ادیان ہوں جیسے اسلام، مسیحیت، یہودیت یا غیر الٰہی جیسے بودیزم، صابئین وغیرہ۔ ان سب نے آخری زمانے میں ایک مصلح کے ظہور کرنے کی خبر دی ہے اور ان تمام مکاتب فکر کے پیروکار اسی پر اپنا عقیدہ بھی رکھتے ہیں۔ درحقیقت یہ تمام انسانوں کی ایک فطری خواہش ہے کہ دنیا سے ظلم و بربریت کا خاتمہ ہو، تبعیض کی دیواریں منہدم ہوں اور پوری دنیا میں عدالت کا راج ہو۔ اسی فطری آواز کی تائید تمام آسمانی کتابوں نے بھی کی ہے اور اس کی کافی تاکید ہوئی ہے کہ اللہ تعالٰی کائنات کو ظلم، شرک اور بت پرستی سے نجات دے کر پاک کرے گا اور اپنے پاکیزہ اور صالح بندوں کو زمین کا وارث قرار دے گا۔ غرض سارے انسان اس دن کے منتظر ہیں کہ جس دن منجی ظاہر ہوں گے، ظلم و ستم کی دیواروں کو وہ منہدم کریں گے اور عدل و انصاف کا ایک عالمی نظام نافذ کریں گے، لیکن انسانی معاشرے میں مختلف افکار و اعتقادات رکھنے والے افراد کے ہونے کے باعث ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے عقیدے سے مطابقت رکھنے والی خاص خصوصیات کے ساتھ ان کے ظہور کی خوشخبری دی ہے۔(1)
لیکن اسلام جو فطرت انسانی کے عین مطابق ایک جامع نظام حیات اور تمام الٰہی شریعتوں کے نچوڑ کا نام ہے، اس حوالے سے خاص اہتمام کیا ہے، اہل سنت میں سے 120 سے زائد قدیم و جدید برجستہ علماء نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ شیعوں کے گیارہویں امام حضرت امام حسن العسکریؑ کے ہاں "ابوالقاسم محمد بن الحسن" نامی ایک بیٹا ہوا، ان کا لقب حجت، قائم، خلف صالح، منتظر اور مہدی ہیں، ساتھ ہی ان سب نے صراحت یا اجمال کے ساتھ اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا ہے کہ یہی اسلام کی نظر میں جو مہدی موعود ہے اس کا مصداق ہے، پیغمبر اکرمؐ نے بھی خبر دی ہے کہ مہدیؑ ظہور کرکے اس دنیا کو بحرانی حالت سے نکال کر وہ ایک عالمگیر حکومت قائم کریں گے۔(2)
ہم یہاں اس حوالے سے اہل سنت کے چار مشہور فرقوں کے علماء میں سے بعض برجستہ شخصیات کے اقوال کو ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

ایک سوال ہمیشہ سے میرے ذہن میں کھٹکتا رہتا تھا، جس سے میرا ذہن ہمیشہ اضطراب میں رہتا تھا، میری ہمیشہ سے کوشش یہ رہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح اس مشکل کو حل کیے بغیر نہیں رہوں گا، اس سوال نے مجھے مختلف لائبریریوں تک پہنچا دیا، مختلف دانشوروں سے سوال کرنے پر مجبور کیا، مختلف شہروں میں پھرایا، آخر کار جب مجھے قانع کنندہ جواب ملا تب مجھے اطمینان محسوس ہوا، شاید یہ سوال آپ کے ذہن میں بھی موجزن ہو، وہ سوال تھا کہ جن بزرگان دین کو ہم اپناپیشوا مانتے ہیں، ان کی ستائش اور تعریف و تمجید کو ہم اپنا وطیرہ بنا رکھتے ہیں، کیا وہ حقیقت میں ہی ان مقامات عالیہ پر فائز ہیں یا ہمارے والدین کی تربیت کے باعث ہمارے ذہنوں میں ان کا ایک ایسا مقام بن گیا ہے؟ میں نے مختلف اسلامی کتابوں کا مطالعہ کیا، ہر جگہ ان ہستیوں کی فضیلتوں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے تھے، پھر بھی میں مطمئن نہیں ہوا، شاید دینی پیشوا ہونے کی بناپر مسلم تاریخ دانوں اور سیرت نگاروں نے حقیقت کو دیکھے بغیر اپنی ذاتی عقیدت کی بنا پر ایسا کیا ہو، اس کے بعد میرے ذہن میں ایک تدبیر آئی کہ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ میں غیرمسلموں کے آثار اور کتابوں کا ذرامطالعہ کرکے دیکھتا ہوں کہ وہ ان ہستیوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں، کیونکہ حقیقی فضیلت وہ ہوا کرتی ہے جس کی شہادت دشمن بھی دے، میں نے حضور اکرم (ص) کے حوالے سے دیکھا ، سبھی دوست و دشمن ان کے مداح پائے، حضرت زہرا ؑ کے حوالے سے میں نے تحقیق شروع کی۔
مسیحیوں اور دوسرے غیرمسلموں کی ان کی شان میں مستقل کتابوں اور مقالوں نے ان سے میری عقیدت میں پختگی کا سامان فراہم کیا، پھر میں تمام مسلمانوں کے پیشوا حضرت علیؑ کے حوالے سے دقت نظر سے تحقیق شروع کی، ان کے حوالے سےمختلف کتابوں کا میں نے مطالعہ کیا، غیرمسلم دانشوروں اور مستشرق افراد سے ان کے حوالے سے رائے لی، "ایک مسیحی پولس سلامہ (Poul Salama) کا کہنا ہے: ہاں میں ایک مسیحی ہوں، وسعت نظر ہوں، تنگ نظر نہیں ہوں، میں خود تو مسیحی ہوں لیکن ایک ایسی شخصیت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں تمام مسلمانوں کا کہنا ہے کہ خدا ان سے راضی ہے، پاکیزگی اس کے ساتھ ہے، شاید خدا بھی ان کا احترام کرے، مسیحی اپنے اجتماعات میں ان کو موضوع سخن قرار دیتے ہیں اور ان کے فرامین کو اپنے لیے نمونہ عمل سمجھتے ہیں، ان کی دینداری کی پیروی کرتے ہیں، آئینہ تاریخ نے پاک و پاکیزہ اور اپنے نفس کو سرکوب کرنے والی بعض نمایاں ہستیوں کی واضح تصویر کشی کی ہے، ان میں علیؑ کو سب سے برتری حاصل ہے۔یتیموں اور فقراء  کی حالت زار دیکھ کر غم سے نڈھال ہوکر آپ کی حالت ہی غیر ہوجاتی تھی۔ اے علیؑ آپ کی شخصیت کا مقام ستاروں کے مدار سے بھی بلند و برتر ہے۔ یہ نور کی خاصیت ہے کہ پاک و پاکیزہ باقی رہتا ہے اور اور گرد و نواح کے گرد و غبار اسے داغدار اور آلودہ نہیں کرسکتے۔وہ شخص جو شخصیت کے اعتبار سے آراستہ پیراستہ ہو وہ ہرگز فقیر نہیں ہوسکتا، آپ کی نجابت و شرافت دوسروں کے غم بانٹنے کے ذریعے پروان چڑھی تھی۔ دینداری اور ایمان کی حفاظت میں جام شہادت نوش کرنے والا مسکراہٹ اور رضامندی کے ساتھ درد و الم کو قبول کرتا ہے"۔ پھر میں نے  فرانس کے میڈم ڈیلفو Madame Dyalfv)کو آپ کی خصوصیات یوں بیان کرتے پایا" حضرت علیؑ کااحترام شیعوں کے نزدیک بہت زیادہ ہےاور یہ بجا بھی ہے۔ کیونکہ اس عظیم ہستی نے اسلام کی ترویج کے لیے بہت ساری جنگوں میں اپنی فداکاری کا مظاہرہ کیا،ساتھ ہی علم، فضائل، عدالت اور دوسرے صفات حمیدہ میں بھی آپ بے نظیرتھے، آپ نے اپنے صلب سے ایک پاکیزہ نسل چھوڑی، آپ کے بچوں نے بھی آپ کی سیرت کو اپنایا، اسلام کی سربلندی کے لیے  مظلومیت کے ساتھ وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے،حضرت علیؑ وہ باعظمت ہستی ہیں جس نے ان تمام بتوں کو توڑ ڈالا جسے عرب یکتا خدا کے شریک ٹھہراتے تھے۔اس طرح آپ توحید پرستی اور یکتا پرستی کی تبلیغ کرتے تھے، آپ ہی وہ ہستی ہیں جس کا ہر عمل اور کام مسلمانوں کے ساتھ منصفانہ ہوا کرتا تھا، آپ ہی وہ ہستی ہیں جس کی خوشخبری اور دھمکی دونوں حتمی ہوا کرتی تھیں۔بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

امام محمد باقر (ع) کی شخصیت علمائے اہل سنت کی نظر میں

وجود مقدس حجت خدا آسمان امامت و ولایت کے پانچویں ستارے، امام محمد باقر (ع) اول رجب سن 57 ہجری کو شہر مقدس مدینہ منورہ میں دنیا میں آئے۔ آپکے والد گرامی امام زین العابدین (ع) اور مادر گرامی، امام حسن مجتبی (ع) کی دختر نیک اختر فاطمہ تھیں۔ لہذا آپ پہلے امام معصوم تھے کہ جنکے والدین ہر دو فاطمی و علوی تھے۔ سن 95 ہجری میں اپنے والد کی شہادت کے بعد آپ امامت کے بلند و الہی منصب پر فائز ہوئے۔ آپ 199 سال اور چند مہینے اس عظیم مقام پر اس امت کی امامت اور راہنمائی فرماتے رہے، اور آخر کار 7 ذی الحجہ سن 114 ہجری کو ہشام بن عبد الملک ملعون کے ہاتھوں شہید ہوئے اور قبرستان جنت البقیع میں امام حسن (ع) اور امام سجاد (ع) کے جوار میں دفن ہوئے۔

اس تحریر میں ہم باقر العلوم امام محمد باقر (ع) کی نورانی اور الہی شخصیت کو اہل سنت کے علماء کی نظر میں بیان کریں گے اور دیکھیں گے کہ تمام آئمہ طاہرین (ع) شیعیان نہ فقط یہ کہ خود علمائے شیعہ کی نظر میں ایک عظیم اور بلند مقام رکھتے ہیں، بلکہ خود اہل سنت کے علماء کے نزدیک بھی آئمہ اہل بیت ایک خاص مقام و احترام رکھتے ہیں:بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


زندگى حضرت خدیجه را مى‏ توان  نمونه ای کامل از تحول مثبت و سیر به سمت کمال دانست; زیرا خدیجه(س) بیش از چهل‏ سال از زندگى‏اش را در دوران جاهلیت‏ سپرى‏ کرد، آنگاه با غلبه بر تمام تضادهاى موجود اجتماعى دل به اسلام سپرد. و به اولین اجتماع کوچک اسلامى گام‏نهاد (1) . زندگانى او چون پلى است که ابتداى آن در دوران جاهلیت و انتهایش در دوران اسلامى است. از اینرو بررسى نقاط حساس زندگانى وى مى‏تواند ما را در دست‏یابى به الگوى مثبت‏ی ارى‏دهد و براى همه گروههاى جامعه، بویژه ن، که دوران جاهلیتها، تعصبها و هجوم فرهنگهاى بیگانه را تجربه کرده‏اند سودمند باشد.

 اوضاع اجتماعى ن در عصر جاهلى

کعبه، نماد توحید، با قامتى کشیده و استوار پابرجاى بود اما مردم پیرامونش بر اثر زندگى خشن بیابانى، عدم ارتباط با تمدنهاى دیگر و حکمفرمایى جهل و امیال نفسانى به سوى انحطاط گام برمى‏داشتند، انحراف از آیین توحیدى خلیل‏الله در تمام شئون حیاتى و اجتماعى آنان دیده‏مى‏شد و از افراد بى‏رحم و جاهل انباشته‏بود. نظام اجتماعى عربستان نظامى بیابانى بود، و زورمندترین جریان اجتماعى و قبیله‏اى در راس هرم قدرت جاى‏داشت. ن که از لحاظ اجتماعى ضعیف‏ترین گروه جامعه بودند به طور کامل مقهور اراده و تمایلات مردان به شمار مى‏آمدند و در جنبه‏هاى اقتصادى، اخلاقى، فرهنگى و آداب و سنن اجتماعى تحت‏سلطه بودند.
گاه مردانى که نیاز مالى داشتند و یا در اندیشه توسعه ثروت بودند گروهى از ن را خریدارى کرده، پس از آموزش آوازخوانى و نوازندگى خانه‏هایى در اختیارشان مى‏گذاشتند و پرچمى که نشانه آزادى ورود همگان بود بر بام خانه‏هایشان نصب مى‏کردند. وظیفه این ن کسب درآمد براى طبقه مسلط جامعه بود. کردار زشت چنان وقاحت‏خود را ازدست داده‏بود که ثروتمندان بى‏هیچ دغدغه‏اى به استثمار عفت و عزت ن مى‏پرداختند و از این راه ثروتهاى کلان گرد مى‏آوردند (2) .
زمانى نیز تنها به خاطر ازدیاد نسل به موجودیت زن احترام مى‏گذاشتند و براى رسیدن به این هدف از هر راه ممکن سود مى‏جستند; برخى به طور اشتراکى زنى را به همسرى مى‏گرفتند (3) و عده‏اى به طور قبیله‏اى زنى را به عقد درمى‏آوردند.
وقتى تار جهل به پود فقر گره‏مى‏خورد، مردم را به سنتهاى هولناک مى‏کشاند، دخترکشى تنها یکى از دهها نت‏خوفناکى است که در جزیرة‏العرب رواج‏داشت. بر اساس منابع موجود، صعصعة‏بن ناجیه مجاشعى‏» جد فرزدق به تنهایى دویست‏وهشتاد دختر را از پدرانشان خرید و با پرداخت‏سه شتر براى هر کدام آنها را از مرگ حتمى نجات‏داد. این خبر مى‏تواند گستره وسیع نفوذ این سنت زشت را نشان‏دهد. فرزدق خاطره احسان جد خویش را چنین زنده کرده‏است:
وجدى الذى منع الوائدین واحیا الوئید فلم توئد (4)
جدم همان شخصى است که دخترکشان را از زنده‏به‏گورکردن، بازداشت و زنده‏به گورشدگان را نجات‏داد و نگذاشت دفن‏شوند.بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


مورخین ومحدثین اور علمائے فریقین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جو ام کلثوم حضرت عمر کے نکاح میں آئیں وہ کم سن تھیں اور روایات میں اس بی بی کا سن چار سال سے سات سال تک کا بیان ہوا ہے ۔علماء یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ عقد سنہ 17 ھ

میں ہوا ہے ۔ہم نے اوپر ثابت کیا کہ ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیھا کی عمر سنہ 17 ھ میں گیارہ بارہ سال تھی اور یہ سن عرب کی آب وہوا کی مناسبت سے صغیر سنی کا نہ تھا بلکہ اس عمر میں عربی لڑکیاں قابل شادی ہوچکی ہوتی ہیں لہذا زوجہ عمر ام کلثوم وہ نہیں ہوسکتی تھیں جو بنت علی و فاطمہ (علیھما السلام)تھیں۔
تاریخ سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ حضرت عمر کے نکاح میں ام کلثوم نا م کی بیوی متعدد تھیں مثلا
1:- ام کلثوم جمیلہ بنت عاصم بن ثابت ۔جو عاصم بن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری جلد 2 ص 251)
2:-ام کلثوم بنت جرول خزاعیہ ۔ان کا اصل نام ملیکہ تھا ۔یہ زیدبن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ کامل جلد 3 ص 22)
3:- ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ۔زہری کے مطابق یہ بی بی زمانہ جاہلیت میں عمربن عاص کے پاس بھاگ کر آئی تھیں اور انھوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ان کے رشتہ داروں نے حضور (ص) سے واپسی کا مطالبہ کیا تو آنحضرت نے فرمایا ۔"جو عورت اسلام قبول کرے وہ واپس نہیں جائیگی چونکہ ابن عاص ابھی کافر تھا لہذا واپس نہ کیا گیا اور حضرت عمر نے ان سےنکاح کرلیا (تفسیر کبیر فخرالدین رازی جلد 8 ۔شرح بخاری قسطلانی ج 4 ص 349)
4:- ام کلثوم بنت راہب۔ (سنن ابن ماجہ اور سنن ابو داؤد )
5:- ام کلثوم بنت ابو بکر ۔ دختر اسماء بنت عمیس خواہر محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ (طبقات الاتقیاء ابن جہاں ۔اعلام النساء جلد 4 ص 250)

بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


حدثتنی فاطمة و زینب و ام کلثوم بنات موسی بن جعفر قلن : ۔۔۔ عن فاطمة بنت رسول الله صلی الله علیه و آله وسلم و رضی عنها : قالت : ”انسیتم قول رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم یوم غدیر خم ، من کنت مولاه فعلی مولاه و قوله صلی الله علیه و آله وسلم ، انت منی بمنزلة هارون من موسی اس حدیث کو حضرت فاطمہ معصومہ(س) امام صادق(ع) کی بیٹی سے نقل کرتی ہیں ۔ اس حدیث کی سند کا سلسلہ حضرت زہرا(س) پر اختتام پزیر ہوتا ہے ۔ حضرت فاطمہ زہرا(

حدثتنی فاطمة و زینب و ام کلثوم بنات موسی بن جعفر قلن : ۔۔۔ عن فاطمة بنت رسول الله صلی الله علیه و آله وسلم و رضی عنها : قالت : ”انسیتم قول رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم یوم غدیر خم ، من کنت مولاه فعلی مولاه و قوله صلی الله علیه و آله وسلم ، انت منی بمنزلة هارون من موسی
اس حدیث کو حضرت فاطمہ معصومہ(س) امام صادق(ع) کی بیٹی سے نقل کرتی ہیں ۔ اس حدیث کی سند کا سلسلہ حضرت زہرا(س) پر اختتام پزیر ہوتا ہے ۔
حضرت فاطمہ زہرا(س) نے فرمایا : کیا تم نے فراموش کردیا رسول خدا(ص) کے اس قول کو جسے آپ نے غدیر کے دن ارشاد فرمایا تھا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی(ع) مولا ہیں ۔
اور کیا تم نے رسول خدا(ص) کے اس قول کو فراموش کردیا کہ آپ(ص) نے علی(ع) کے لئے فرمایا تھا کہ آپ(ع) میرے لئے ایسے ہیں جیسے موسی(ع) کے لئے ہارون(ع) تھے۔(عوالم العلوم، ج/۲۱ ، ص/353)
عن فاطمة بنت موسی بن جعفر علیه السلام :
۔۔۔ عن فاطمة بنت رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم : قالت :
قال رسول الله صلی اللہ علیه و آله وسلم :
اٴلا من مات علی حب آل محمد مات شهیداً »
حضرت فاطمہ معصومہ(س) اسی طرح ایک اور حدیث حضرت امام صادق(س) کی بیٹی سے نقل کرتی ہیں اور اس حدیث کا سلسلہ سند بھی حضرت زہرا(س) پر اختتام پزیر ہوتا ہے ۔
حضرت زہرا(س) نے فرمایا کہ رسول خدا(ص) فرماتے ہیں: آگاہ ہوجاوٴ کہ جو اہل بیت (ع) کی محبت پر اس دنیا سے اٹھتا ہے وہ شہید اٹھتا ہے ۔
مرحوم علامہ مجلسی شیخ صدوق سے حضرت معصومہ(س) کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں روایت نقل فرماتے ہیں :
قال ساٴلت ابا الحسن الرضا علیه السلام عن فاطمة بنت موسی ابن جعفر علیه السلام قال : ” من زارها فلة الجنة
راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت فاطمہ معصومہ(س) کے بارے میں امام رضا (ع) سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ جو شخص ان کی قبر اطہر کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوجائے گی


انسان محبت اور توجہ کا بھوکا ہوتا ہے۔ محبت اور توجہ دلوں کو حیات بخشتی ہے۔ جو انسان خود کو پسند کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ لوگ بھی اسے پسند کریں۔ محبت و چاہت انسان کو شادمان اور خوشحال کرتی ہے۔ محبت ایک ایسا جزبہ ہے جو استاد و شاگرد دونوں کے دلوں پر مساوی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر انسان کسی کو چاہتا نہیں ہوگا، پسند نہیں کرتا ہوگا تو اس کی تربیت کیسے کر سکتا ہے۔ تربیت اولاد میں محبت کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔

محبت،

استاد و شاگرد کے درمیان ارتباط برقرار کرنے میں نہایت اہم اور کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ بہترین رابطہ وہ ہے جس کی اساس اور بنیاد محبت پر ہو اس لیے کہ یہ ایک فطری اور طبیعی راستہ ہے اس کے علاوہ دوسرے تمام راستے، جن کی بنیاد زور زبردستی اور بناوٹ وغیرہ پر ہوتی ہے، وہ سب غیر طبیعی اور غیر مفید رابطے ہیں۔ بچوں کی مہمترین روانی و فطری ضرورت محبت، التفات اور توجہ حاصل کرنا ہے اور چونکہ والدین بچوں کے سب سے پہلے سر پرست اور مربی ہیں لہذا ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں کی اس فطری ضرورت ہر خاص توجہ مبذول کریں اور انہیں جاننا چاہیے کہ یہی وہ ضرورت ہے جو ان کی تربیت کی اساس اور بنیاد کو تشکیل دیتی ہے لہذا اس ضرورت کا پورا ہونا ان کے لیے روانی و فطری سلامتی، اعتماد بہ نفس اور والدین پر اعتبار کا سبب اور ذریعہ ہونے کی ساتھ ساتھ ان کی جسمانی سلامتی کا بھی باعث ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: اکثروا من قبلة اولادکم، فان لکم بکل قبلة درجة فی الجنة۔ اپنے بچوں کو بوسے دو اس لیے کہ تمہارا ہر بوسہ تمہارے لیے بہشت کے ایک درجہ کو بڑھا دے گا۔ لہذا والدین تربیت کی بنیاد مہر و محبت پر رکھیں۔ اس لیے کہ اگر ایسا نہیں ہوگا تو وہ ارتباط جو بچوں کے رشد و کمال کا سبب بن سکتا ہے، بر قرار نہیں ہو سکے گا اور صحیح طرح سے تربیت نہیں ہو سکی گی جب کہ اگر والدین کا سلوک تندی و سختی لیے ہوءے ہوگا تو وہ بچے کی روحی و روانی ریخت و شکست کا سبب ہو جاءے گا اور وہ بے راہ روی کا شکار ہو جاءے گا۔
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں



کمال کا حصول ہر انسان کا فطری حق ہے،جب انسان فطرت کے تقاضوں کے مطابق کمال کے حصول کی جستجو کرتا ہے تو پورا نظامِ فطرت یعنی نظام کائنات اس کی مدد کرتا ہے۔ اس دنیا میں ہر مادی انسان  کے لئے ضروری ہے کہ کو ئی الٰہی ہادی  اس کو کمال کی طرف لے جائے۔ انسان کسی پتھر کی طرح نہیں ہے کہ کوئی دوسرا اسے اٹھا کر بلندی، معراج یا کمال کے مقام پر رکھ دے،  بلکہ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ اپنے نمونہ عمل یعنی اپنے ہادی کو پہچانے، اس کی معرفت کے ساتھ اس کی اتباع کرے اور جب انسان صحیح اور کامل ہادی کی اتباع کرتا جائے گا تو وہ خود بخود کمال کی منازل کو طے کرتا جائے  گا۔ خداوند عالم نے جن شخصیات کو بنی نوع انسان کے لئے نمونہ عمل اور رول ماڈل بنا کر خلق کیا ہے ، ان میں سے ایک ہستی حضرت فاطمہ اہرا سلام اللہ علیھا کی بھی ہے۔آج کے اس پر آشوب دور میں ضروری ہے کہ اس شخصیت کی حیاتِ مبارکہ کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی جائے  تا کہ اولادِ آدم آپ کی سیرت کو بطریقِ احسن سمجھ کر اس پر عمل کر کے مادی و معنوی کمالات کو حاصل کرسکے۔ بصورت دیگر کوئی شخصیت کتنی ہی جامع کیوں نہ ہو اگر اس کی سیرت پر عمل نہ کیاجائے تو معاشرے کو اس سے  جو فائدہ پہنچنا چاہیے وہ نہیں پہنچ پاتا۔اگر ہم اپنے معاشرے کو انسانیت کی بلندیوں اور ملکوت کے اعلی درجات پر دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ آج بھی ممکن ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم  خود بھی حضرت فاطمۃ ہرا ؑ کی عملی شخصیت اور حقیقی فضائل  سے آگاہ ہوں اور اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی اس معظمہ بی بی ؑ کی سیرت و کردار سے متعارف کروائیں۔بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں
جب آپ کے نزدیک ابو بکر صدیق منافق، مرتد، ظالم اور غاصب ہیں تو حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بھا ئی جعفر طیار کی بیوہ اسما ء بنت عمیس کا عقدان کے ساتھ کیو ں ہو نے دیا؟
یہ سوال، سوال کرنے والے کی تاریخ سے لا علمی کی دلیل ہے ۔ اس لئے کہ ابوبکر نے اسماء بنت عمیس سے پیغمبر اسلام کے دور حیات میں ہی ان کے شوہر حضرت جعفر طیار کی شہادت کے بعد عقد کرلیاتھا ۔ اس کی تفصیل کتاب صحیح مسلم پر جناب عائشہ سے اس طرح نقل کی گئی ہے: (عن عائشة قالت نفَسَت اسماء بنت عمیس بمحمد بن ابی بکر بالشجرۃ، فاٴمر رسول الله ابابکر یاٴمرها ان تغتسل وَتَهلّ) 1
عائشہ کا کہنا ہے کہ اسما ء بنت عمیس نے جب محمد بن ابو بکر کو مقا م شجرہ پر جنم دیا تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ابو بکر کو حکم دیا کہ اس بچہ کو غسل دو اور اس کے کان میں اذان واقامت کہوہمیں تا ریخ میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اسماء کی شادی ابوبکر سے کرا ئی ہو۔
لیکن اسماء بنت عمیس نے ابوبکر سے عقد کیو ں کیا اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم یا حضرت علی علیہ السلام نے انھیں منع کیوں نہیں کیا ؟
جواب: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے احکام اسلام ظاہری طور پر جا ری کئے ہیں اور لوگوں کے ما فی الضمیرپر لا گو نہیں کئے اور نہ ہی کسی کے عیوب سے پر دہ ہٹا یاہے یہ بات مسلّم ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ: (ان فی اصحابی منافقین) 2 یعنی آنحضرت نے فرمایا: میرے اصحاب میں بعض افراد منافق ہیں۔ اور صحیح مسلم میں بھی منقول ہے کہ آپ نے فر مایا: (لانخرق علی احد ستراً) میں کسی کے گناہوں پر پڑے ہو ئے پردے نہیں اٹھاتا مجمع اوا ئد 3 پر ابن عمر سے روایت نقل ہو ئی ہے کہ:
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

سید الشہدا، امام حسین بن علی علیھما السلام، رسول اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے اور شیعوں کے تیسرے امام ہیں۔ آپ (ع) کی مادر گرامی سیدہ ین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ہیں۔ آپ ہجرت کے تیسرے سال تین شعبان کو یا دوسری روایت کے مطابق ہجرت کے چوتھے سال تیسری یا پانچویں شعبان کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ جب اس نومولود کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے جایا گیا تو آپ مسرت سے پھولے نہ سمائےاور آپ کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔

ولادت کے ساتویں روز عقیقہ کی رسم ادا کرتے ہوئے آپ کے سر کے بال اتارے گئے۔ اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بیٹی فاطمہ زہرا (س) سے فرمایا کہ حسن کی طرح میرے حسین کے سر کے بالوں کا وزن کر کے ان کے برابر چاندی صدقہ کرو۔

امام حسین(ع) اپنے بھائی امام حسن(ع) سے عمر میں بہت کم چھوٹے تھے اسی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ان دونوں سے متعلق احادیث اور واقعات میں دونوں کا ایک ساتھ تذکرہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل شدہ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: " جو شخص حسن و حسین کو دوست رکھے گا میں اسے دوست رکھوں گا اور جو مجھے دوست رکھے گا خدا اسے دوست رکھے گا اور خدا سے دوستی بہشت کا سبب ہے۔ اور جو ان دونوں سے دشمنی رکھے گا میں اس سے دشمنی رکھوں گا اور جسے میں دشمن سمجھوں گا خدا بھی اس کو اپنا دشمن قرار دے گا۔ اور جس سے خدا دشمنی کرے گا وہ جہنم کی آگ میں بھنے گا"۔ بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


دنیا کے تمام مسلمان اور غیر مسلمان اس بات کے گواہ ہے کہ کچھ سالوں سے امریکہ اور صہیونیت کے زیر سایہ تربیت یافتہ وہابی نامی فرقہ مسلمانوں  خاص طور پر شیعوں کا قتل عام کر رہا ہے اور مظلوم اور نہتے عوام کو خاک و خون میں غلطاں کرنے میں مصروف ہے جبکہ انسانی حقوق کے تحفظ کا نعرہ لگانے والی عالمی تنظیموں کے کانوں میں جوں تک بھی نہیں رینگ رہی ہے اور وہ خاموشی سے تماشائی بنی ہوئی ہیں اور عالمی استکبار جو ان ظالموں کی کھلے عام حمایت کر رہا ہے کے سامنے ان کی بولتی بند ہے!
ان واقعات اور حادثات کے پیش نظر ہم اس مقالے میں کوشش کریں گے کہ ان تشدد آمیز کاروائیوں کو وجود میں لانے والے اس فرقے پر ایک تحقیقی نگاہ ڈالیں جو سعودی عرب، قطر اور ترکی کی براہ راست حمایت سے انسان کشی اور حقیقی اسلام کی نابودی کے در پہ ہے۔ اس مقالے میں ہم یہ بیان کریں گے کہ یہ فرقہ جو محمد بن عبد الوہاب کے ذریعے معرض وجود میں آیا کیسے پیدا ہوا؟ اس کو وجود میں لانے کے اہداف و مقاصد کیا تھے؟ اور ان کے نظریات اور افکار کیا ہیں؟
اصلی گفتگو میں وارد ہونے سے پہلے درج ذیل نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:
۱: فرقہ وہابیت جو جزیرۃ العرب میں محمد بن عبد الوہاب تمیمی نجدی (۱۱۱۵۔۱۲۰۶ھ ق) کے ذریعے بارہویں صدی ہجری میں معرض وجود میں آیا ایک گمراہ، منحرف اور اسلامی تعلیمات سے دور فرقہ تھا کہ جس نے اب تک عالم اسلام کے اندر سوائے فتنہ پروری اور قتل و غارت کے کچھ نہیں کیا۔
۲: خالص توحید اور ہر طرح کے شرک کی نفی کرنے والا یہ فرقہ ضالہ عالمی استکبار اور استعمار کے ساتھ ساز باز کر کے اسلامی عقائد میں تحریف اور اسلامی آثار کو مٹا کر دین مبین اسلام کا حقیقی چہرہ مسخ کرنا چاہتا ہے۔
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

امام مظلوم(ع) کی مجالس عزا کہ جو عقل کے جہل پر، عدل کے ظلم پر، امانت کے خیانت پر اور اسلامی حکومت کے طاغوتی حکومت پر غالب آنے کا ذریعہ ہیں کو حتی المقدور پورے ذوق شوق کے ساتھ منعقد کیا جائے۔ عاشورا کے خون سے رنگین پرچموں کو ظالم سے مظلوم کے انتقام کی علامت کے طور پر بلند کیا جائے۔ آئمہ اطہار علیھم السلام اور خاص کر کے امام مظلوم سید الشھداء (ع) کی عزاداری کے پرگراموں سے ہر گز غفلت نہیں کی جائے۔ مجالس عزا کو اسی طریقے سے جیسے اس سے پہلے انجام پاتی تھی برپا کیا جائے۔ مجالس عزا کو ، ماتمی دستوں کو جیسا سزاوار ہے محفوظ رکھا جائے۔
آئمہ اطہار (ع) کی مجالس عزا کی حفاظت کریں۔ یہ ہمارے مذہبی شعائر بھی ہیں اور ی شعائر بھی، ان کو محفوظ رکھا جائے۔ یہ اہل قلم آپ کو بازیچہ نہ بنائیں۔ یہ لوگ آپ کو بازیچہ نبائیں اپنے مختلف انحرافی مقاصد کے ذریعے ، یہ لوگ چاہتے ہیں آپ سے ہر چیز کو چھین لیں۔
مجالس کو اپنی جگہ پر ہی برپا ہونا چاہیے۔ مجالس کو عمل میں لانا چاہیے اور اہل منبروں کو چاہیے کہ شہادت امام حسین (ع) کو زندہ رکھیں۔ قوم کو ان دینی شعائر کی قدر جاننا چاہیے۔ خاص کر کے عزاداری کو زندہ رکھیں عزاداری سے ہی اسلام زندہ ہے۔
ہمیں ان اسلامی سنتوں کی، ان اسلامی دستوں کی کہ جو روز عاشورا یا محرم اور صفر کے دوسرے دنوں میں سڑکوں پر نکل کر عزاداری کرتے ہیں حفاظت کرنا چاہیے۔ سید الشھداء کی فداکاری اور جانثاری ہے جس نے اسلام کو زندہ رکھا ہے۔ عاشورا کو زندہ رکھنا اسی پرانی اور سنتی روایتوں کے ساتھ، علماء اور خطباء کی تقاریر کے ساتھ، انہیں منظم دستوں کی عزاداری کے ساتھ بہت ضروری ہے۔ یہ جان لو کہ اگر چاہتے ہو کہ تمہاری تحریک باقی رہے روایتی عزاداری کو محفوظ رکھو۔
علماء کی ذمہ داری ہے کہ مجالس پڑھیں۔ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ منظم دستوں میں گھروں سے باہر نکلیں۔ اور ماتم سید الشھدا کریں۔ البتہ جو چیزیں دین کے خلاف ہیں ان سے پرہیز کریں۔ لیکن ماتم کریں اپنے اجتماعات کی حفاظت کریں یہ اجتماعات ہیں کہ جو ہماری حفاظت کر رہے ہیں یہ آپسی اتحاد ہے جس نے ہمیں زندہ رکھا ہے۔ وہ لوگ ہمارے پاک دل جوانوں کو دھوکہ دیتے ہیں ان کے کانوں میں آکر کہتے ہیں اب رونے کا کیا فائدہ؟ اب گریہ کر کے کیا کریں گے؟
یہ جلوس جو ایام محرم میں سڑکوں پر نکلتے ہیں انہیں ی مظاہروں میں تبدیل نہ کرنا۔ مظاہرے اپنی جگہ ہیں۔ لیکن دینی جلوس ی جلوس نہیں ہیں بلکہ ان سے بالاتر ہیں، وہی ماتم، وہی نوحہ خوانی،وہی چیزیں ہماری کامیابی کی علامت ہیں۔ پورے ملک میں مجالس عزا برپا ہونا چاہیے، سب مجلسوں میں شریک ہوں سب گریہ کریں۔
انشاء اللہ روز عاشورا کو لوگ گھروں سے نکلیں گے امام حسین (ع) کے تعزیانے اٹھائیں اور جلوس میں صرف عزاداری کریں گے۔
خدا ہماری قوم کو کامیابی عطا کرے کہ وہ اپنی پرانی روایتوں کے ساتھ عاشورا میں عزاداری منائے۔ ماتمی دستے اپنے زور و شور کے ساتھ باہر نکلیں اور ماتم اور نوحہ خوانی بھی شوق و ذوق کے ساتھ ہو اور جان لو کہ اس قوم کی زندگی اسی عزاداری کے ساتھ ہے۔
منبع: قیام عاشورا در كلام و پیام امام خمینى، (تبیان، آثار موضوعى امام، دفتر سوم) تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینى، چاپ دوم، 1373.

قرآن کریم میں لفظ ”شیعہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور بڑی شخصیتوں کی پیروی کرنے والوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ خداوندعالم (حضرت موسی (علیہ السلام) کے واقعہ میں)فرماتا ہے : ” وَ دَخَلَ الْمَدینَةَ عَلی حینِ غَفْلَةٍ مِنْ اٴَہْلِہا فَوَجَدَ فیہا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلانِ ہذا مِنْ شیعَتِہِ وَ ہذا مِنْ عَدُوِّہِ فَاسْتَغاثَہُ الَّذی مِنْ شیعَتِہِ عَلَی الَّذی مِنْ عَدُوِّہِ (۱) ۔ اور موسٰی شہر میں اس وقت داخل ہوئے جب لوگ غفلت کی نیند میں تھے تو انہوں نے دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھا ایک ان کے شیعوں میں سے تھا اور ایک دشمنوں میں سے تو جو ان کے شیعوں میں سے تھا اس نے دشمن کے ظلم کی فریاد کی ۔
دوسری جگہ فرماتا ہے : ” وَ إِنَّ مِنْ شیعَتِہِ لَإِبْراہیمَ ، إِذْ جاء َ رَبَّہُ بِقَلْبٍ سَلیم (۲) ۔ اور یقینا نوح علیہ السّلام ہی کے پیروکاروں میں سے ابراہیم علیہ السّلام بھی تھے ، جب اللہ کی بارگاہ میں قلب سلیم کے ساتھ حاضر ہوئے ۔
اختلاف اور تفرقہ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے : ”مِنَ الَّذینَ فَرَّقُوا دینَہُمْ وَ کانُوا شِیَعاً کُلُّ حِزْبٍ بِما لَدَیْہِمْ فَرِحُونَ (۳) ۔ ن لوگوں میں سے جنہوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں پھر ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر مست اور مگن ہے ۔
جب بھی پیروی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ مثبت اور ایجابی پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے (۴) اور جب تفرقہ اور اختلاف کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو اس وقت منفی معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے (۵) ۔
لیکن حدیث میں چونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) اصلی عرب تھے لہذا انہوں نے اس لفظ کو اس کے حقیقی معنی (پیروی کرنے والے )میں استعمال کیا ہے ۔ جس وقت یہ آیت ” إِنَّ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ اٴُولئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ (اور بے شک جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بہترین خلائق ہیں )(۶) ۔نازل ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس سے حضرت علی (علیہ السلام) کی پیروی کرنے والوں (شیعوں) کی تعریف کی ۔ محدثین اور مفسرین نے متعدد روایات میں نقل کیا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کی پیروی کرنے والے گروہ کو خیر البریة (بہترین انسان) کے نام سے یاد کیا ہے ۔
ان میں سے بعض احادیث یہ ہیں :
۱۔ ابن مردویہ نے عایشہ سے اس طرح نقل کیا ہے کہ عایشہ نے کہا : یا رسول اللہ (ص) خدا کے نزدیک بہترین افراد لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا : ائے عایشہ ! کیا تم اس آیت ” ان الذین آمنوا و عملوا الصالحات اولئک ھم خیر البریہ ) کی تلاوت نہیں کرتی ہو؟(۷) ۔
۲۔ ابن عساکر نے جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے کہ ہم لوگ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) کے پاس موجود تھے کہ حضرت علی (علیہ السلام) تشریف لائے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) نے فرمایا : اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ اور ان کی پیروی کرنے والے قیامت کے روز کامیاب ہیں، اور یہ آیت ” إِنَّ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ اٴُولئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ نازل ہوئی ۔ اس کے بعد سے جب بھی حضرت علی (علیہ السلام) آتے تھے تو اصحاب کہتے تھے ”خیر البریہ (بہترین انسان) آگئے (۸) ۔
۳۔ ابن عدی اور ابن عساکر نے ابوسعید سے نقل روایت کی ہے کہ ” علی (علیہ السلام) خیر البریہ ہیں(۹) ۔
۴۔ ابن عدی نے ابن عباس سے نقل کیاہے : جب یہ آیت ” إِنَّ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ اٴُولئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا : قیامت کے روز آپ اور آپ کی پیروی کرنے والے”خیر البریة (بہترین انسان) ہیں، آپ لوگ بھی اللہ سے راضی ہو اور اللہ بھی تم لوگوں سے راضی ہے (۱۰) ۔
۵۔ ابن مردویہ نے حضرت علی (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام)نے فرمایا کہ مجھے سے پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: کیا تم نے خداوند عالم کے اس کلام کو نہیں سنا ہے ” إِنَّ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ اٴُولئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ؟ خیر البریہ آپ اور آپ کے چاہنے والے ہیں ،میں تم سے حوض کوثر کے پاس ملنے کا وعدہ کرتا ہوں، جس وقت امتوں کو حساب و کتاب کے لئے بلایا جائے گا، تو تم کو بھی بلایا جائے گا (۱۱) ۔ (۱۲) ۔
۱۔ سورہ قصص، آیت ۱۵۔
۲۔ سورہ صافات، آیت ۸۳۔۸۴۔
۳۔ سورہ روم، آیت ۳۲۔
۴۔ جیسے : ” وَ دَخَلَ الْمَدینَةَ عَلی حینِ غَفْلَةٍ مِنْ اٴَہْلِہا فَوَجَدَ فیہا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلانِ ہذا مِنْ شیعَتِہِ وَ ہذا مِنْ عَدُوِّہِ فَاسْتَغاثَہُ الَّذی مِنْ شیعَتِہِ عَلَی الَّذی مِنْ عَدُوِّہِ (۱) ۔ اور موسٰی شہر میں اس وقت داخل ہوئے جب لوگ غفلت کی نیند میں تھے تو انہوں نے دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھا ایک ان کے شیعوں میں سے تھا اور ایک دشمنوں میں سے تو جو ان کے شیعوں میں سے تھا اس نے دشمن کے ظلم کی فریاد کی ۔
۵۔ ” اٴَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعاً وَ یُذیقَ بَعْضَکُمْ بَاٴْسَ ۔(سورہ انعام ، آیت ۶۵) ۔
۶۔ سورہ بینہ ، آیت ۷۔
۷۔ الدر المنثور ، ج ۶، ص ۵۸۹، سورہ بینہ کی ساتویں آیت کی تفسیر۔
۸۔ گذشتہ حوالہ، ج ۶،ص ۵۸۹۔
۹۔ گذشتہ حوالہ۔
۱۰۔ الدر المنثور ، ج ۶، ص ۵۸۹۔
۱۱۔ گذشتہ حوالہ۔
۱۲۔ سیمای عقاید شیعہ، ص ۲۵۔

 شیعہ توحید و نبوت و معاد کے علاوہ عدل الہی اور امامت کو اصول دین قراردیتے ہیں اور ان اصولوں میں تقلید کو جائز نہیں سمجھتے بلکہ ان اصولوں میں تحقیق کے قائل ہیں. رسول اللہ (ص) کو خاتم النبیین مانتے ہیں اور انکار ختم نبوت کو اسلام سے خارج ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں؛ رسول اللہ (ص) کے بعد اہل تشیع کے بارہ امام ہیں جن کے قول و فعل میں فرق نہیں ہے اور ان کے تعدد کی وجہ سے فرقے نہیں بنتے بلکہ سب کے سب ایک ہی دین کے شارح و مفسر اور ایک ہی مذہب کے امام ہیں.
اہل تشیع کے اصول عقائد
شیعہ توحید و نبوت و معاد کے علاوہ عدل الہی اور امامت کو اصول دین قراردیتے ہیں اور ان اصولوں میں تقلید کو جائز نہیں سمجھتے بلکہ ان اصولوں میں تحقیق کے قائل ہیں. رسول اللہ (ص) کو خاتم النبیین مانتے ہیں اور انکار ختم نبوت کو اسلام سے خارج ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں؛ رسول اللہ (ص) کے بعد اہل تشیع کے بارہ امام ہیں جن کے قول و فعل میں فرق نہیں ہے اور ان کے تعدد کی وجہ سے فرقے نہیں بنتے بلکہ سب کے سب ایک ہی دین کے شارح و مفسر اور ایک ہی مذہب کے امام ہیں.
بارہ امام:
1-   حضرت امام علی علیہ السلام
2-   حضرت امام حسن علیہ السلام
3-   حضرت امام حسین علیہ السلام
4-    حضرت امام علی زین العابدین علیہ السلام
5-    حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
6-    حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
7-     حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام
8-     حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام
9-      حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام
10-    حضرت امام علی النقی آلہادی علیہ السلام
11-   حضرت امام حسن اکی العسکری علیہ السلام
12-   حضرت امام قائم المہدی علیہ السلام
شیعہ تفکر کے مطابق ائمہ علیہم السلام رسول اللہ کی طرح معصوم ہیں. تقیہ سنت رسول اللہ ہے جس پر آپ (ص) نے دعوت اخفاء کے دوران اور دعوت ذوالعشیرہ سے پہلے تین سال تک عملدرآمد کیا اور شیعہ مکتب میں تقیہ ایک بنیادی حکم ہے؛ شیعہ بداء و رجعت رسول و ائمہ (ع) کے قائل ہیں جن کی تفصیل دیکھیں گے تو دلیلیں بھی دیکھنے کو ملیں گی.
شیعہ مکتب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث کے مطابق امام دوازدہم غائب ہیں جو مشیت الہیہ کے مطابق ظہور فرمائیں گے اور دنیا کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھردیں گے جس طرح کہ یہ ظلم و ستم سے بھرگئی ہے.
معروف ہے کہ اسلام علی (ع) کی تلوار اور خدیجہ(ع) کی دولت سے پھیلا_ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے کیامراد ہے؟ کیا یہ کہ حضرت خدیجہ(ع) لوگوں کو مسلمان ہونے کیلئے رشوت دیتی تھیں؟ کیا تاریخ میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ آپ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ رسول(ص) اللہ اسلام کیلئے لوگوں سے روابط استوار کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کیلئے مالی مدد بھی فرماتے تھے _اس کی بہترین دلیل جنگ حنین میں مال غنیمت کی تقسیم ہے_ (جس کا بعد میں تذکرہ ہوگا) اس کے علاوہ اسلامی قوانین کے اندر مؤلفة القلوب کے حصے سے بے خبرہے؟_
اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ طرز عمل کا مطلب یہ نہیں کہ (نعوذ باللہ ) یہ لوگ قبول اسلام کیلئے رشوت لیتے تھے_ بلکہ اسلام تو بس یہ چاہتا ہے کہ یہ لوگ اسلامی ما حول سے آشنا اور مربوط رہیں _نیز ہر قسم کے تعصب یا نفسیاتی، ی اور معاشرتی رکاوٹوں سے بالاتر ہو کر اس کی طرف نگاہ کریں_بنابریں ان کو دیا جانے والا مال مذکورہ موہوم رکاوٹوں کو اکثر موقعوں پر ہٹانے اور انہیں اسلامی ما حول سے آشنا اور مربوط رکھنے، نیز اسلام کے اہداف وخصوصیات سے آشنا کرنے میں مدد دیتا تھا تاکہ نتیجتاً وہ اسلام کی حفاظت اور اس کے عظیم اہداف کے سامنے قلبی اور فکری طور پر سر تسلیم خم کریں_
چنانچہ ان میں سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے ان کو مال ودولت اور ہر قسم کی ان مراعات سے محروم کردیا ہے ، جن کو وہ فطری طور پر چاہتے تھے _بنابریں طبیعی بات ہے کہ وہ پوشیدہ طور پراپنے مفادات کے لئے مضر، اس گھٹن کی فضا سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے _لیکن جب ان کی مالی اعانت کی جائے اور انہیں یہ سمجھایا جائے کہ اسلام مال ودولت کا دشمن نہیں، جیساکہ ارشاد ربانی ہے (قل من حرم زینة اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبات من الرزق) یعنی اے رسول(ص) کہہ دیجئے، کس نے اللہ کی حلال کردہ زینتوں اور پاک روزیوں کو حرام قرار دیا ہے_ نتیجتاً وہ سمجھ جائیں گے کہ اسلام کا مقصد انسان کی انسانیت کو پروان چڑھانا، نیز مال، طاقت، حسن اور اقتدار وغیرہ کی بجائے انسانیت کو حقیقی معیار قرار دیناہے اور اسی پیمانے پر نظام زندگی کو استوار کرنا ہے تاکہ انسان دنیا و آخرت دونوں میں منزل سعادت تک پہنچ سکے_
حضرت خدیجہ کے اموال کے حوالے سے واضح ہے کہ یہ اموال لوگوں کو مسلمان بنانے کیلئے بطور رشوت نہیں دیئے جاتے تھے اور نہ ہی مؤلفة القلوب کیلئے تھے _حضرت خدیجہ(ع) کے مال سے تو بس ان مسلمانوں کیلئے قوت لایموت کا بندوبست ہوتا تھا جو اپنے دین اور عقیدے کی راہ میں عظیم ترین مصائب ومشکلات جھیل رہے تھے_ اورجن کا مقابلہ کرنے کیلئے قریش ہر قسم کے غیر اخلاقی وغیر انسانی حربوں حتی کہ انہیں فقر وفاقے پر مجبور کرنے کے حربے سے کام لے رہے تھے _ یہ ہے وہ حقیقت جس کی بنا پر یہ مقولہ مشہور ہوگیا کہ اسلام حضرت خدیجہ(ع) کے مال اور حضرت علی(ع) کی تلوار سے کامیاب ہوا_
یہ واضح ہے کہ بنی ہاشم کے بائیکاٹ کے دوران حضرت خدیجہ کی دولت صرف بھوکوںکو زندہ رکھنے والے اناج اور برہنہ کو لباس فراہم کرنے میں خرچ ہوئی _دیگر امور میں ان اموال سے چندان، استفادہ نہیں ہوا کیونکہ وہ غالباً خرید وفروش سے معذور تھے_آخر میں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ مکہ میں اموال کی جس قدر بھی کثرت ہوتی لیکن پھر بھی اس کے وسائل محدود تھے کیونکہ مکہ کوئی غیرمعمولی یابہت بڑا شہر نہ تھا _ البتہ بستی یا گاؤں کے مقابلے میں بڑا تھا، اسی لئے قرآن نے اسے ام القری (بستیوں کی ماں یعنی مرکزی بستی) کا نام دیا ہے _بنابریں اس قسم کے چھوٹے شہروں کے مالی وسائل بھی محدود ہی ہوتے ہیں_
----------------------
(1)_ البدایة و النہایة ج 3ص 84 _(2)_ شرح نہج البلاغہ معتزلی ج 13ص 256 _(3)_ شرح نہج البلاغہ معتزلی ج 13ص 256و ج 14ص 65نیز الغدیر ج 7ص 357_358از کتاب الحجة ( ابن معد)، ابن کثیر نے اسے البدایة و النہایة ج 3ص 84میں نام کا ذکر کئے بغیر نقل کیا ہے نیز تیسیر المطالب ص 49


حضرت علی اکبر (ع) بن ابی عبداللہ الحسین (ع) 11 شعبان سن43 ھ (1) کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوے آپ امام حسین بن علی بن ابی طالب (ع) کے بڑے فرزند تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام لیلی بنت مرّہ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہے ـ لیلی کی والدہ میمونہ بنت ابی سفیان جوکہ طایفہ بنی امیہ سے تھیںـ (2) اس طرح علی اکبر (ع) عرب کے تین مہم طایفوں کے رشتے سے جڑے ہوے تھےوالد کیطرف سے طایفہ بنی ھاشم سے کہ جس میں پیعبر اسلام (ص) حضرت فاطمہ (س) ، امیر المومنین علی بن ابیطالب (ع) اور امام حسن (ع) کے ساتھ سلسلہ نسب ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے دو طایفوں سے بنی امیہ اور بنی ثقیف یعنی عروہ بن مسعود ثقفی ، ابی سفیان ، معاویہ بن ابی سفیان اور ام حبیبہ ھمسر رسول خدا (ص) کے ساتھ رشتہ داری ملتی تھی اور اسی وجہ سے مدینہ کے طایفوں میں سب کی نظر میں آپ خاصا محترم جانے جاتے تھے ـ ابو الفرج اصفہانی نے مغیرہ سے روایت کی ہے کہ: ایک دن معاویہ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ : تم لوگوں کی نظر میں خلافت کیلۓ لایق اور مناسب ہے ؟ اسکے ساتھیوں نے جواب دیا : ہم تو آپ کے بغیر کسی کو خلافت کے لایق نہیں سمجھتے ! معاویہ نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے ـ بلکہ خلافت کیلۓ سب سے لایق اور شایستہ علی بن الحسین (ع) ہے کہ اسکا نانا رسول خدا (ص) ہے اور اس میں بنی ھاشم کی دلیری اور شجاعت اور بنی امیہ کی سخاوت اور ثقیف کی فخر و فخامت جمع ہے (3)
حضرت علی اکبر (ع) کی شخصیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافی خوبصورت ، شیرین زبان پر کشش تھے ، خلق و خوی ، اٹھنا بیٹھنا ، چال ڈال سب پیغمبر اکرم (ص) سے ملتا تھا ـ جس نے پیغبر اسلام (ص) کو دیکھا تھا وہ اگر دور سے حضرت علی اکبر کو دیکھ لیتا گمان کرتا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) ہیں ۔ اسی طرح شجاعت اور بہادری کو اپنے دادا امیر المومنین علی (ص) سے وراثت میں حاصل کی تھی اور جامع کمالات ، اور خصوصیات کے مالک تھے ـ (4)
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

ابن عبد البرنے کتاب میں آپ کا ذکر کیا ہے اور سبط ابن جوزی نے اپنی کتاب تذکرہ الخواص میں حضرت فاطمہ کی اولاد کا ذکر ترتیب کے ساتھ  کیا ہے۔ علامہ سید محسن عاملی مرحوم نے اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں ذکر کیا ہے کہ آپ کی شادی جناب عون ابن جعفر طیار کے ساتھ ہوئی تھی جبکہ استیاب ، اصابہ ،اسدالغابہ جیسی کتابوں میں خلیفہ عمر خطاب کے ساتھ آپ کی شادی کی روایتیں لائی گئی ہیں جو جعلی ہیں جب کہ  علامہ محسن عاملی نے تحقیق کے بعد اس بات کا یقین حاصل کیا ہے کہ سرے سے یہ واقعہ وجود میں نہیں آیا اور اس شادی کی روایت من گھڑت  ہے اور اسے خلیفہ عمر کے فضائل کے طور گڑھا گیا ہے جو صحیح نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں روایات و اخبارات سے متعلق اس قدر اختلاف موجود ہیں جو خود اس واقعہ کے نہ ہونے کی دلیل ہیں ۔ صاحب ریاحین الشریعہ نے بھی اس روایت سے مختلف اقوال کو جمع کرنے کے بعد لکھا ہے کہ میں سرے سے یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ یہ شادی ہوئی ہو گی ۔
  علامہ مامقانی  نے اپنی کتاب رجال میں زینب صغری کی کنیت ام کلثوم بتائی ہے اور یہ لکھا ہے کہ آپ اپنے بھائی کے ساتھ کربلا میں موجود تھیں اور امام سجاد کے ساتھ شام اور پھر مدینہ تشریف لے گئیں ۔ آپ بڑی جلیل لقدر ، صاحب فہم اور صاحب بلاغت تھیں ۔ روایات میں ہے کہ خلیفہ عمر بن خطاب نے  زبردستی آپ سے شادی کی جب کہ دوسری بہت سی روایتیں اس سے انکارکرتی ہیں ۔ روایات میں ہے کہ جب جناب فاطمہ زہرا کی وفات ہوئی تو جناب ام کلثوم برقعہ پہنے ہو‎ۓ یہ فریاد کر رہی تھیں ۔ اے رسول (ص) آج ہم نے آپ کو کھو دیا اور اس طرح سے کھو دیا کہ اب پھر کبھی نہیں پا سکتے ۔
 شیخ مفید اور شیخ طوسی نے امالی میں لکھا ہے کہ جب امیرالمومنین  کو ضربت لگی تو جناب ام کلثوم آپ کے قدموں کے پاس بیٹھیں ، امیرالمومنین نے آنکھیں کھولیں اور جناب ام کلثوم کو دیکھا اور فرمایا میں اب اپنے پروردگار کی جانب سفر کر رہا ہوں جو بہترین منزل ہے یہ سن کر جناب ام کلثوم نے ہاۓ بابا کہہ کر رونا شروع کر دیا  اور ابن ملجم کے پاس آئیں اور فرمایا اے دشمن خدا تو نے امیرالمومنین کو قتل کر ڈالا ۔ اس ملعون نے کہا ! میں نے امیرالمومنین کو قتل نہیں کیا بلکہ تمہارے بابا کو قتل کیا ہے ۔ جناب کلثوم نے فرمایا  ! امید ہے میرے بابا اس ضربت سے جان بر ہو جائیں گے لیکن ابن ملجم نے کہا کہ میں نے تمہارے بابا کے سر پر ایسی زہر آلود  ضربت لگائی ہے کہ اگر اس کا زہر تمام اہل کوفہ پر تقسیم کر دیا جا‎ۓ تو سب ہلاک ہو جائیں گے ۔
 ابو مخنف نے ام کلثوم سے روایت نقل کی ہے کہ امام حسین کے قتل کے بعد میں نے کسی کو امام کے اوپر مرثیہ پڑھتے ہوۓ سنا لیکن اسے نہیں دیکھا ۔ ام کلثوم کہتی ہیں کہ میں نے  اس شخص کو قسم دے کر پوچھا تو ہے ؟ اس نے کہا میں جنوں کا بادشاہ ہوں امام کی نصرت کے لۓ آیا ہوں لیکن جب پہنچا تو امام قتل ہو چکے تھے ۔ واقعات کربلا میں جناب ام کلثوم کے اشعار اور کوفہ وشام میں آپ کے اتشین خطبے امام حسین کی مظلومیت اور حقانیت کو ثابت کرنے کے لۓ بہترین نمونے ہیں ۔ کوفے میں جناب ام کلثوم  نے اپنے خاندان کی حقیقت کو کوفے والوں کے سامنے روشن کرنے کے لۓ جبکہ اہل کوفہ صدقے کے خرمے پھینک رہے تھے اور چھوٹے بچے انہیں منہ میں رکھ رہے تھے تو بچوں سے وہ خرمے لے کر آپ نے پھینک دیۓ اور اہل کوفہ سے فرمایا اے اہل کوفہ ہمیں صدقے کے خرمے نہ دو اس لۓ کہ صدقہ ہم آل محمد (ص) پر حرام ہے ۔ قید شام سے چھوٹ کر جب آپ مدینے تشریف لاتی ہیں  تو آپ نے مدینے کے درودیوارکو دیکھ کر بڑا دردناک مرثیہ پڑھا جسے بحارالانوار نے دسویں  جلد میں نقل کیا  ہے ۔ آپ کی وفات کے بارے میں تحقیق کے ساتھ زیادہ معلوم نہیں ہے لیکن کتاب بحرالمصایب میں نقل ہے کہ مدینہ آنے کے چار ماہ بعد آپ انتقال کر گئیں ۔ چونکہ علامہ حلی ، شیخ کفعمی ، شیخ مفید جیسے علماء کے مطابق اہل بیت سفر کو مدینہ واپس ہو‎ۓ تھے  لہذا تقریبا جمادی الثانی کی آخری تاریخوں میں 62 ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے ۔ آپ مدینہ میں ہی مدفون ہوئیں ۔

تمہید :

کسی بھی رہبر یا قائد کو اپنے مشن میں کامیابی اس وقت ملتی ہے جب اس کے پاس مخلص اور وفادار افراد ہوں۔ تاریخ میں بھی یہ حقیقت موجود ہے کہ اب تک   جو بھی اسلامی تحریکیں رونما ہوئیں اور ان میں کامیابی ملی ہے اس کا راز یہی ہے کہ اس تحریک کے قائدین کے پاس مخلص اور وفادار ساتھی موجود تھے۔ کربلا کے عظیم اور دلخراش واقعہ میں بھی امام حسینؑ کے پاس نہایت ہی وفادار اصحاب  تھے کہ جنکی قربانی کے سبب آپؑ کو کامیابی ملی۔ اسی اہمیت کے پیش نظر ہم آنے والی سطور میں امام حسینؑ  اور امام زمانہ عج کے اصحاب کی خصوصیات کے بارے میں بحث کریں گے ۔ چونکہ اہلبیتؑ کے پیروکار ہونے کے ناطے ، یہ خصوصیات ہم میں ضرور ہونا چاہیے۔ لہذا یہ مقالہ معاشرے کے جوانوں کی تربیت اور ان کو امام زمانہ عج کے صحیح پیروکاروں میں سے قرار دینےکے لئے کافی حد تک معاون ثابت ہوگا۔ البتہ اس شرط کے ساتھ کہ پڑھنے والا یہ کوشش کرے کہ ان خصوصیات کو اپنے اندر پیدا کرے۔ اگرچہ اس مختصر مقالہ میں ان دونوں اماموں ؑکے اصحاب کی تمام خصوصیات کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے لیکن ہم صرف ایسی خصوصیات کی طرف اشارہ کرینگے جو دوسری بعض خصوصیات کی بہ نسبت اہمیت کی حامل ہیں  اور دونوں اماموں ؑکے اصحاب میں مشترک ہیں۔

۱۔ شناخت :

وہ خصوصیت  جو کہ ہر امامؑ کے پیروکاروں میں ہونا ضروری ہے یہ کہ انساناپنے امامؑ سے متعلق معرفت اور شناخت پیدا کریں۔ جب تک معرفت نہ ہو اس کا ایمان تکمیل نہیں ہو سکتا۔ امام باقرؑ فرماتے ہے :خدا کا بندہ  اس وقت تک مؤمننہیں ہو سکتا جب تک خدا ، اسکے رسولﷺ، تمام ائمہ ؑ اور اپنےزمانے کے امامؑ کو نہ پہچانےاور اپنی (زندگی کے)امور میں اپنے زمانے کے امامؑ کی طرف رجوع نہ کرے اور اسکے تسلیم نہ ہو جائے۔اور اسکے بعد فرمایا : یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی آخری امامؑ کو جوکہ اس کے زمانے کا امامؑ ہے؛اس کو پہچانے اور پہلے امامؑ کو نہ پہچانے  ۔(1) بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


  مدینے میں ام البنین(س)کے  چاند کا طلوع:

  حضرت عباسؑ کے سن ولادت میں مؤرخین نے اختلاف کیا ہے لیکن ان اقوال میں سے دو قول مشہور ہیں کہ آپ 4شعبان المعظم سنہ 23 یا 26ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا  ہوئے۔  یہ بات حکمت سے خالی نظر نہیں آتی کہ امام حسین ؑ نے 3شعبان المعظم کو اپنے وجود سے اس جہان خاکی کو منور فرمایا اور 4شعبان کو حضرت ابوالفضل العباسؑ اس دنیا میں آئے  یوں ان دو ہستیوں کا آپس میں ایک خاص ارتباط سے انکار نا ممکن ہے۔

حضرت علی ؑ کو اپنے مستجاب تمنا کی آمد پر خوشی:

  جب امیرالمومنین حضرت علی ؑ کو حضرت عباسؑ کی ولادت کی بشارت دی گئی تو  آپؑ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے، جلدی گھر آئے بچے کو آغوش میں لیا اور نومولود کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی، حضرت علیؑ کا یہ طرز عمل شاید عام لوگوں کو معمولی لگے لیکن حضرت علی ؑ اپنے مستجاب دعا کو بد و تولد میں ہی یکتا پرستی کا سبق پڑھا رہے تھے، چونکہ حضرت علی ؑ اپنی دوررس نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ ان کے بیٹا عباس ؑ گوش شنوا اور چشم بینا رکھتے ہیں اور تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عباسؑ نے اپنی پوری حیات بابرکت میں ایک لحظہ کے لئے بھی حق کے راستے میں شک کا شکار نہیں ہوئے اور ہمیشہ اپنے امام وقت کی اطاعت اور پیروی میں زندگی گزاری۔ امام علیؑ نے اپنے نو مولود کا نام عباس(یعنی بپھرا ہوشیر)رکھا۔ عباس کا بچپن، لڑکپن اور جوانی عصمت و طہارت کے سایہ تلے گذری۔ انہوں نے اس موقع سے اپنے لئے پورا فائدہ اٹھایا۔ باپ نے جس غرض کے لئے آپ کو مانگا  تھا اس پر پورے اترے اور کربلا میں آپ نے وہ کردار ادا کیا جو رہتی دنیا تک دوسروں کے لئے نمونہ عمل رہے۔

 امام علی ؑ نے کان میں اذان و اقامت اور نامگذاری کے مراسم انجام دینے کے بعدحضرت عباس کو فرزند رسولﷺ ، جگر بتول حضرت امام حسین ؑ کی آغوش میں دیا۔ آقا حسینؑ نے اپنے قوت بازو کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیا، مولا حسینؑ کی خوشبو محسوس کر کے حضرت عباسؑ نےولادت کے بعد پہلی بار آنکھیں کھولیں اور اپنے بھیا کے چہرے کی زیارت کی اس منظر کی شاعر نے یوں نقشہ کشی کی ہے۔ہے گود میں شبیر کے تصویر وفا کی                اک آنکھ ہے مسرور تو اک آنکھ ہے باکی

   میرا دل کہہ رہا ہے شاید حضرت عباسؑ مولا حسین ؑ کی آغوش میں پہلی بار آنکھیں کھول کر اپنے مولا و آقا حسینؑ کے چہرے کی زیارت کے ساتھ، اپنے باپ کی تمنا اور آرزوں پر پورا اترنے کا عہد و پیمان کر رہے تھے۔بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


حضرت عباس علیہ السلام کی ذات بابرکت، فضائل اوربرکات کاوہ موج زن سمندر ہے کہ ایک  یا چند مقالوں سے اس  عظیم شخصیت کے کسی ایک پہلو پر بھی سیر حاصل بحث نہیں کی جاسکتی، لیکن عربی کےاس معروف موکلہمالا یدرک کله لا یترک  کله» کومدنظررکھتےہوۓ  اس مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ حضرت عباس علمدار کی ایک اہم ترین صفت( وفاء) کےذیل میں کچھ مطالب بیان کریں ، البتہ یہ اعتراف کرتے ہوے کہ حضرت عباس (ع) کی زندگی تحلیل کرنا ایک معمولی کام نہیں ، اور مجھ جیسے بے بضاعت کے بس میں نہیں کہ ایک سیر حاصل بحث کر سکوں فقط اس امیدکے ساتھ  کہ میرا نام بھی محبان خاندان عترت و طہارت کی فهرست میں شامل ہوجاے آنحضرت (ع)کے فضائل و کمالات کے کچھ موتی اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کیے دیتا ہوں اورنیز اپنے اس مقالے کو یوم جانباز(غازیوں کادن) کی مناسبت سے اسلام کےتمام غازیوں کےنام منسوب کرتا ہوں۔

ولادت با سعادت حضرت عباسؑ:

    حضرت عباس ؑکی تاریخ تولدکےسلسلےمیں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن معروف یہ ہے کہ  آپ کی ولادت با سعادت جمعہ کےدن چہار شعبان سال ٢٦ ہجری کو مدینہ منورہ میں ہویٔی۔ امیر المومنین (ع) نے اپنے نو مولود کا نام عباسؑ رکھا چونکہ علی (ع) بعنوان دروازہ علم نبوت جانتے تھے کہ ان کا یہ فرزند ارجمند بغیر کسی شک و تردیدکے باطل کے مقابلے میں سخت اور هیبت والے  اور حق کے سامنے شاداب و تسلیم ہے۔  استاد ارجمند  آیت اﷲ ڈاکٹراحمدبہشتی دامت برکاتہ اپنی ایک کتاب (قہرمان علقمہ) میں عباس کے معنی  بیان کرتے هوے  فرماتے ہیں: نہیں جانتا  کہ عباس ؑکو زیادہ  غصہ دلانے والا معنی کروں یانہیں۔ کیونکہ آپ ہی تھے کہ دشت کربلا میں دشمن آپ کےوجود سے غصے میں آجاتا اوراس پر حالت عبوست ظاہرہوجاتی ۔ا اورنام عباس  ان کی چین وس کوچھین لیتا تھا۔ »  البتہ اھل لغت نے لفظ عباس کا ایک اور معنی بھی بیان کیا ہے وہ معنی بھی حضرت عباس کے لیے مناسب اور موزوں ہے۔اس معنی کے تحت عباس اس شیر کو کہتے ہیں جس کو دیکھ کر دوسرے شیر بھاگ جاتے ہیں۔اور یہ منظر صحرا  طف میں سب نے دیکھاکہ جناب عباس جس طرف بھی حملہ کرتے  تھے سارے یزیدی وہاں  سے بھاگ  جاتے  تھے۔ شجاعت ، بہادری، وفا  اور  دلیری  جیسی خصوصیات کو دیکھتے ہوئے شجاع باپ نے اپنے شجاع بیٹے  کا  نام عباس  ؑرکھا اور مورخین کے کلمات اس بات کے گواہ  ہیں  وہ  لکھتے ہیں:سماہ امیرالمومنین علیه السلام بالعباس لعلمه بشجاعته و سطوته و عبوسته فی قتال الاعداء و فی مقا بله الخصما» ٰ حضرت علی علیہ السلام نے عباس  کانام عباس اس لیے رکھا کیونکہ آپ میدان جنگ میں دشمن  کے مقابلے میں حضرت  عباس کی شجاعت،قدرت و صلابت کے بارے میں علم و آگاھی رکھتے تھے۔ بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


واقعہ کربلا میں خواتین کا کردار
واقعہ کربلا نے انسانیت کو سرخ رو کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کو حیات نو بخشی ہے۔اس عظیم اور بے مثال جنگ میں جہاں پر مولا امام حسین علیہ السلام کے با وفا ،بہادرفرزندان  اور  اصحاب کے بے نظیر کردار موجود ہیں وہاں پر  خواتین کی بے مثل قربانیوں سے انکار نا ممکن ہے، جس کو انسانیت کی  تاریخ نے ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا ہے۔ ان مثالی خواتین نے باطل کے مقابل اپنے معصوم بچوں کو بھوک وپیاس کی شدت سے بلکتا ہوا دیکھنا گوارا کیا، لیکن دین اسلام کی کشتی کو ڈوبنے نہیں دیا ۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں کہ مقصد واقعہ کربلا کو اپنی منزل مقصود تک پہنچانے میں خواتین کربلا کے کئی بے نظیر ولاثانی کردار ہیں۔یہاں پر یہ جملہ لکھا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا کہ حادثہ کربلا میں اگر یہ عظیم خواتین نہ ہوتیں تو حضرت امام حسین علیہ  السلام  کا مقصد قربانی ادھورا ہی رہ جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت سید الشہدا علیہ السلام  نے بہت سے اصحاب کباررضی اللہ عنہم کے مشورے کے برخلاف اپنے ہمراہ اسلامی معاشرے کے لیے نمونہ خواتین کو میدان کربلا میں لائے تھے۔کربلا کی ان بہادرخواتین نے اپنی عمل سے ثابت کردکھایا کہ نواسہ رسول علیہ السلام کربلا میں خواتین کو بے مقصد نہیں لائے تھے۔
کربلا کا واقعہ صرف عراق کی سر زمین کربلا میں ہونیوالا ایک واقعہ نہیں ہے ،بلکہ کربلا ایک تحریک، ایک حقیقت ،ایک مشن اور ایک مقصد کانام ہے کیونکہ خامس آل عبا  علیہ السلام  کی اس عظیم تحریک کاآغاز  28رجب المرجب 60 ھ سے شروع ہو ا اور یہ تحریک  محرم الحرام  کو عصر عاشورا کے ساتھ ختم نہیں ہوئی بلکہ ام المصائب ،ثانی زہرا جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور بیمار کربلا ،سید السجاد،زین العابدین حضرت امام علی ابن الحسین علیہما السلام کی سربراہی میں کوفہ اور شام کے فاسق،جابر اور ظالم حکمرانوں کے درباروں تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ اس انقلاب کی صدا پورے شرق و غرب اور عرب و عجم میں بھی سنائی دی ۔لہذا ہم اس مقالے کو دو حصوںمیں تقسیم کرتے ہیں پہلے حصے میں ان با وفا خواتین کا مختصر تعارف اور ان کے کردار اور  دوسرے حصے میں ان باکردار خواتین کو بھی خراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش کریں گے جنہوں نے کربلا میں  موجود نہ ہونے کے باوجود خواہ وہ عاشورا کے بعد ہو یا پہلے اپنے کردار او ر افعال سے اس   عظیم تحریک کی حمایت کر کے اپنے ناموں کو قیامت تک کے لئے  حسینی کاروان کے ساتھ جوڑ لیا۔بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

(68) زھیر بن قین بن قیس بجلی
اشرافِ عرب میں سے کوفہ کے باشبدہ، بہادر تھے اور متعدد لڑائیوں میں شریک ھوچکے تھے.جمل اور صفین کی لڑائیوں کے بعد سے مسلمان "عثمانی" اور "علوی" نام کی دو جماعتوں میں تقسیم ھوچکے تھے.جو لوگ معاویہ کے طرفدار تھے انکو "عثمانی" کہا جاتا تھا اور جو حضرت علی علیہ السلام کی طرف تھے وہ "علوی" کہلاتے تھے.زھیر بن قین عام طور پر 'عثمانی' جماعت سے متعلق سمجھے جاتے تھے اور بظاھر وہ اھلبیت نبوی علیھم السلام کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہ رکھتے تھے.
زھیر سنہ 60ھ میں اپنے اھل و عیال کے ساتھ مناسکِ حج بجالانے کے بعد کوفہ کی طرف جارھے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کا ساتھ ھوگیا.اگرچہ زھیر بظاھر امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کوئی خاص عقیدت نہ رکھتے تھے تاھم ایسا معلوم ھوتا ھے کہ وہ آپ (ع) کی خاندانی وجاھت سے مرعوب ضرور تھے یعنی انہیں یہ احتمال تھا کہ اگر حسین علیہ السلام مجھ کو نصرت کی دعوت دیں گے تو میرے لیے اسکا رد کرنا ممکن نہ ھوگااسی کا نتیجہ تھا کہ وہ حسینی قافلہ سے دور رھتے تھے.مگر حسین علیہ السلام انکی فطری صلاحیتوں سے واقف تھے اس لیے منزلِ زرود پر امام (ع) نے زھیر بن قین کو بُلا بھیجا جس کے بعد سے زھیر بالکل حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے.
ذوحسم کے مقام پر جب حُر کا لشکر حسینی قافلہ کے سدِراہ ھونے کی غرض سے آچکا تھا تو امام (ع) نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرکے جو خطبہ ارشاد کیا تھا اس کے جواب میں زھیر نے والہانہ انداز سے فداکارانہ جذبات کا اظہار کیا تھا. اس کے بعد جب حُر نے امام (ع) کو کربلا پہنچ کر روکنا چاھا تھا اور نہر کے قریب خیمے برپا کرنے دینے سے بھی انکار کیا تھا تو زھیر نے کہا تھا کہ ھمیں اتنی فوج سے جنگ کرلینے دیجئے اس لیے کہ اس کے بعد اتنا لشکر آئیگا کہ اس سے مقابلہ کرنے کی ھم میں طاقت ھی نہ ھوگی.اس کے جواب میں امام (ع) نے فرمایا تھا کہ میں جنگ میں ابتدا نہیں کرنا چاھتا. بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

(51) قاسط بن زھیر بن حارث تغلبی
وہ اور انکے دو بھائی مقسط اور کردوس حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام کے اصحاب میں سے تھے اور آپ (ع) کے ساتھ لڑائیوں میں شریک ھوئے تھے.پھر امام حسن علیہ السلام کے ساتھ رھے.یہاں تک کہ آپ (ع) نے حجاز کی طرف مراجعت فرمائی.اس کے بعد وہ تینون بھائی کوفہ میں قیام پذیر ھے.یہاں تک کہ جب امام (ع) کربلا میں وارد ھوئے تو وہ تینوں بھائی کسی نہ کسی طرح امام (ع) کی خدمت میں پہنچے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
(52)قاسم بن حبیب بن ابی بشر ازدی
کوفہ کے شیعانِ علی علیہ السلام میں سے بہادر، دلیر اور شہوار تھے.عمر سعد کی فوج کے ساتھ کربلا پہنچے پھر پوشیدہ طریقہ پر امام (ع) کے ساتھ ملحق ھوگئے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
(53) کردوس بن زھیر بن حارث تغلبی
وہ اور انکے بھائی قاسط بن زھیر اور دوسرے بھائی مقسط تینوں اصحاب حضرت علی علیہ السلام میں سے تھے اور آپ (ع) کے ساتھ لڑائیوں میں شرکت کی تھی.کربلا میں خفیہ طریقہ پر خدمتِ امام حسین علیہ السلام میں پہنچے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
(54)کنانہ بن عتیق تغلبی
کنانہ بن عتیق بن معاویہ بن جماعۃ بن قیس تغلبی کوفی شجاعانِ روزگار میں سے عابد و زاھد اور حافظِ قرآن تھے.لڑائی اٹھنے سے پہلے میدانِ کربلا میں خدمتِ امام (ع) میں پہنچے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
(55) مجمع بن زیاد بن عمرو جھنی
"میاة جھنیہ" کے اعراب میں سے جو اثنائے راہ میں امام (ع) کے ساتھ ھوگئے تھے اور جب منزلِ زبالہ میں امام (ع) کے خطبہ کو سنکر سوا مخصوص جان نثاروں کے دوسرے تمام لوگ متفرق ھوگئے تو مجمع بن زیاد امام (ع) کے ھمراہ ھی رھے اور روزِ عاشور پہلے انکا گھوڑا زخمی ھوکر پے ھوا پھر چند آدمیوں کو قتل کرکے وہ دشمنوں میں گھر گئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے. بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

(15) جابر بن حجاج تیمی: قبیلہ تیم اللہ بن ثعلبہ میں سے عامر بن نہشل تیمی کے آزاد کردہ غلام تھے.کوفہ کے باشندہ اور شہسوار تھے.پہلے جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کی حمایت کےلیے کمر بستہ ھوئے تھے مگر حالات کے ناسازگار ثابت ھونے کے بعد مثل دوسرے بہت سے افراد کے وہ بھی اپنے قبیلہ میں روپوش ھوگئے تھے.جب امام (ع) کے کربلا میں وارد ھونے کی اطلاع ھوئی تو وہ عمر سعد کی فوج کے ساتھ کربلا پہنچے اور خفیہ طریقہ پر اس سے علیحدہ ھوکر انصارِ امام حسین علیہ السلام میں شامل ھوگئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
(16)جبلۃ بن علی شیبانی: کوفہ کے باشندہ ، بہادر اور شجاع تھے.جنگِ صفین میں حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام کے ساتھ جہاد میں شریک ھوئے تھے.حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کی نصرت کےلیے کمر بستہ ھوئے تھے مگر حالات کی ناسازگاری کے بعد وہ بھی اپنے قبیلہ میں روپوش ھوگئے اور جب امام حسین علیہ السلام کربلا میں پہنچ چکے تو وہ بھی کسی نہ کسی صورت سے کوفہ سے آکر انصارِ حسین علیہ السلام میں شامل ھوئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
(17)جنادہ بن کعب بن حارث انصاری خزرجی: امام حسین علیہ السلام کی ھمراھی میں مکہ معظمہ سے متعلقین سمیت آئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
() جوین بن مالک بن قیس بن ثعلبہ تیمی: قبیلہ بنی تیم میں ست رکھتے تھے اس لیے اسی قبیلہ کی طرف منسوب ھوتے تھے اور جب کوفہ کے تمام قبائل امام حسین علیہ السلام کے خلاف جنگ کرنے کےلیے بھیجے جارھے تھے تو وہ بھی قبیلہ بنی تیم کے ساتھ عمر سعد کی فوج میں شامل ھوکر میدانِ کربلا تک پہنچے اور جب امام حسین علیہ السلام کے پیش کردہ شرائطِ صلح نامنظور کردیئے گئے اور جنگ کا ھونا قطعی قرار پاگیا تو وہ اسی قبیلہ کے چند دوسرے افراد کے ساتھ شب کے وقت عمر سعد کی فوج سے جدا ھوکر رفقائے امام (ع) کی جانب آگئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
(19) حارث بن امراءالقیس بن عابس کندی: شجاعانِ روزگار میں سے عابد و زاھد تھے اکثر لڑائیوں میں کارِ نمایاں انجام دے چکے تھے.ان کے مذھبی احساس اور ثبات و استقلال کا اس واقعہ سے اندازہ ھوجاتا ھے کہ وہ قلعہ بحبر کا محاصرہ کرنے والوں میں شامل تھے جب مرتدین کو اس قلعہ سے باھر نکال کر قتل کیا جانے لگا تو حارث نے اپنے حقیقی چچا پر حملہ کیا.اس نے کہا 'میں تو تمہارا چچا ھوں' حارث نے جواب دیا کہ "مگر اللہ میرا پروردگار ھے اور اسکا حکم مقدم ھے"
کربلا میں وہ بھی عمر سعد کی فوج میں داخل ھوکر پہنچے تھے لیکن شرائطِ صلح کے نامنظور ھونے کے بعد اس سے علیحدہ ھوکر اصحابِ حسین علیہ السلام کے ساتھ ھوگئے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
(20) حارث بن بنہان: ان کے والد بنہان حضرت حمزہ بن عبدالمطلب علیھما السلام کے غلام ، بہادر اور شہسوار تھے.جنگ اُحد میں جناب حمزہ علیہ السلام کی شہادت واقع ھوئی.اس کے دو برس بعد بنہان نے دنیا سے رحلت کی.اس سے بعد سے حارث نے جناب امیر علیہ السلام کی خدمت میں رھنا اختیار کیا اور پھر امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں رھے.جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے ھجرت فرمائی تو حارث بھی ھمراہ رھے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے. بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

(1). عبداللہ بن عمیر کلبی:آغازِ جنگ کے بعد اصحابِ حسین علیہ السلام میں سب سے پہلے میدانِ کارزار میں یہی آئے تھے.
پورا نام و نسب:ابووهب عبدالله بن عمیر بن عباس بن عبدقیس بن علیم بن خباب الکلبی العلیمی تھا.
حالات و واقعات:کوفہ کے رھنے والے اور قبیلہ ھمدان کے بئرجعد نام کے کنویں کے پاس اپنے ذاتی مکان میں ست رکھتے تھے.یہ مقام کوفہ کی گنجان آبادی سے بالکل باھر اُن باغاتِ خرما کے قریب تھا نو نخیلہ کی حدود میں واقع تھے.انکے ساتھ انکی رفیقہ حیات رھتی تھیں جو قبیلہ نمر بن قاسط سے تھیں اور ام وھب بنت عبد کے نام سے یاد کی جاتی تھیں.اھل سیر کا قول ھے کہ وہ بڑے سُورما، بہادر اور شریف انسان تھے.شیخ طوسی نے کتاب الرجال میں انکا تذکرہ اصحاب علی علیہ السلام میں کیا ھے.
کوفہ میں میں جناب مسلم بن عقیل کی شہادت ھو چکنے پر جب ابن زیاد نے قتلِ حسین علیہ السلام کی تیاری شروع کی اس زمانہ میں عبداللہ بن عمیر بیرونِ شہر اپنے مکان ھی میں مقیم اور موجودہ صورتحال سے بالکل بےخبر تھے.جب امام حسین علیہ السلام کربلا پہبچ گئے اور ابن زیاد نے اپنی لشکرگاہ نخیلہ میں قرار دی تاکہ وھاں فوجوں کا معائنہ کرنے کے بعد کربلا کی جانب روانہ کرے تو اس غیرمعمولی صورتحال کی طرف عبداللہ بن عمیر کو بھی توجہ ھوئی اور انہوں نے لوگوں سے واقعات کی نوعیت دریافت کی.انہیں بتایا گیا کہ یہ فوجیں دخترِ رسول (ص) فاطمۃ اھرا سلام اللہ علیہا کے فرزند حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لیے بھیجی جارھی ھیں.یہ سننا تھا کہ بہادر عبداللہ کے ایمانی جذبہ میں تلاطم پیدا ھوا.انہوں نے خیال کیا کہ مجھے مشرکین سے جہاد کرنے کی حسرت رھی ھے ان لوگوں سے جہاد کرنا جو اپنے رسول (ص) کے نواسہ کے ساتھ جنگ کررھے ھوں یقینًا اللہ کے نزدیک مشرکین کے ساتھ جہاد کرنے سے کم درجہ نہیں رکھتا ھوگا.یہ بات دل میں ٹھان کر وہ اپنی زوجہ کے پاس گئے اور انہیں اپنے ارادہ سے مطلع کیا.پاک عقیدہ اور پُر حوصلہ بی بی نے آتشِ شوق کو اور ھوا دی.اس طرح کہ انہوں نے کہا تم بھی جاؤ اور مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو.چنانچہ رات کے وقت دونوں روانہ ھوئے اور کربلا پہنچ کر انصارِ حسین علیہ السلام کے ساتھ ملحق ھوگئے. اس وقت جب فوج عمرسعد کی جانب سے تیروں کی بارش ھوچکی تھی جو پیغامِ جنگ کی حیثیت رکھتی تھی تو یسار اور سالم دونوں زیاد اور ابن زیاد کے غلام میدان میں آئے اور مبارزت طلب ھوئے.فوجِ حسینی میں سے حبیب ابن مظاھر اور بریر بن خضیر جوش میں بھرے ھوئے آگے بڑھے مگر امام (ع) نے انکو روک دیا.بس عبداللہ بن عمیر کو تو ولولہ جہاد تھا ھی وہ کھڑے ھوگئے اور اجازتِ جنگ چاھی.امام (ع) نے سر سے پیر تک ان پر نظر ڈالی گندمی رنگ، لانبا قد ، مضبوط کلائیاں اور بازو ، کشادہ پشت اور سینہ ملاحظہ کرتے ھوئے بطور خود فرمایا : "بہادر اور جنگ آزما جوان معلوم ھوتا ھے" پھر فرمایا : "جاؤ اگر تمہارا دل چاھتا ھے" عبداللہ میدانِ جنگ میں آئے.فریقِ مخالف نے نام و نسب پوچھا اور انہوں نے بتایا.اس نے کہا ھم تم کو نہیں پہچانتے ھمارے مقابلہ میں زھیر بن قین یا حبیب بن مظاھر یا بریر بن خضیر کو آنا چاھیئے.پس یہ سنکر عبداللہ کو سخت غصہ آیا اسکا جواب سخت الفاظ میں دیتے ھوئے انہوں نے حملہ کرکے پہلے وار میں یسار کا کام تمام کردیا.عبداللہ اسکی طرف متوجہ ھی تھے کہ سالم نے تلوار کا وار کیا جو سر پر آچکا تھا جب انکو خبر ھوئی. . بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

تاریخ نگاروں نے تعصب کی قینچی کس قدر بے رحمی سے استعمال کی ہے کہ کبھی بھی اصل کرداروں کا حقیقی تعارف نہیں کرایا گیا۔ ہم نے اس مضمون میں کوشش کی ہے کہ ان حقیقتوں سے پردہ اٹھائیں جو تعصب اور ذاتی انا کی گرد میں کب سے دبی ہوئی ہیں اور منصب و حکمرانی کی لالچ کی دھول اس ’’Fact File‘‘ پراس قدر جم چکی ہے کہ فائل کا اصل نام ہی چھپ گیا ہے۔ اس فائل اور اس کہانی کا نام ہے ’’تشکیلِ پاکستان میں شیعیانِ علیٴ کا کردار ۔۔۔!‘‘ کہ جس میں شیعیانِ علیٴ کی کاوشوں، کوششوں، عزم و استقلال کو بیان کیا گیا ہے کہ جب ہندوستان کے ہر مسلمان کے لب پر یہی نعرہ تھا:
چشم روشن پاکستان دل کی دھڑکن پاکستان       صحرا صحرا اس کی دھوم گلشن گلشن پاکستان
لے کے رہیں گے پاکستان              بٹ کے رہے گا ہندوستان(سید یاور حسین کیف بنارس)

 ٢٣ مارچ ١٩٤٠ ء

آل انڈیا مسلم لیگ کا 27 واں تاریخ ساز اجلاس 22 تا 23 مارچ 1940 لاہور میں قائد اعظم کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں ہندوستان کے تمام صوبوں کے مسلم زعمائ نے شرکت فرمائی۔ اس اجلاس میں 23 مارچ کو تقسیم برصغیر کی قرارداد پاس ہوئی جو بعد میں ’’قرار دادِ پاکستان ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہی قرارداد دراصل نظریہ پاکستان کی بنیاد بنی۔
اس قرارداد میں یہ طے پایا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں ایک خود مختار ریاست بناکر مسلمانوں کے حوالے کر دی جائے تاکہ وہ اپنی مرضی سے وہاں اسلامی طور طریقے سے زندگی بسر کر سکیں اور اس کا انتظام مکمل طور پر وہاں کے مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو۔
اس کے بعد 14 اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے خطے میں پہلا نظریاتی ملک کہ جس کی بنیاد اسلامی نظریہ حیات تھی، وجود میں آیا۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح رسول۰ اور اہلِ بیت کی کوششوں سے مسلمانوں کو پوری دنیا میں عزت و حکمرانی حاصل ہوئی لیکن انہیں اور ان کے ماننے والوں کو فراموش کردیا گیا۔ نہ صرف یہ کہ انہیں حکومتوں سے الگ رکھا گیا بلکہ ان کی خدمات کو بھی یکسر طور پر فراموش کردیا گیا۔ گویا اسلام کی سربلندی میں ان کا کوئی حصہ تھا ہی نہیں بلکہ خلافت کے حوالے سے تو بنی ہاشم کے خاموش احتجاج کو ’’اسلام کے خلاف سازش‘‘ قرار دیاگیا۔ (شبلی نعمانی، الفاروق)
یہی کچھ پاکستان کے قیام کے حوالے سے ہوا۔ تشکیلِ پاکستان میں شیعیانِ علیٴ کاجو کردار رہا اور جس طرح اہلِ بیتٴ کی تعلیمات کی روشنی میں اور اہلِ بیتٴ کے متوالوں نے جس طرح اس تحریک کو اپنا خون دے کر پروان چڑھایا بالکل اس کے برعکس ان ہی لوگوں کو تحریک پاکستان کے باب سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا گیا اور آج جب لوگوں کو شیعیانِ علیٴ کی تحریکِ پاکستان کے حوالے سے قربانیاں گنوائی جاتی ہیں تو لوگ حیرت و استعجاب سے دیکھنے لگتے ہیں۔ جب پھل کھانے کا وقت آیا تو وہی لوگ صفِ اول میں نظر آئے جو کبھی تحریکِ پاکستان کے مخالفین کی اولین صفوں میں شامل تھے منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے.
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


ایام فاطمیہ میں بنت رسولﷺ زوجہ امیرالمومنین علیہ السلام والدہ گرامی حسنین شریفین علیہما السلام کی یاد سے بقیع کی ویرانی کی بھی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بقیع جسے جنت البقیع کہا جاتا ہے آغاز سے ہی ویران تھا یا کسی کے ظلم کا نتیجہ ہے؟۔ بقیع کے بارے میں تاریخ کیا کہتی ہے؟ بقیع حرم نبوی ﷺ کے بعد مدینہ کا اہم ترین اور افضل ترین مقام ہے۔ بقیع کا قبرستان سب سے پہلا وہ قبرستان ہے جو رسول اسلام ﷺ کے حکم سے مسلمانوں کے ذریعے تاسیس کیا گیا۔ بقیع کی اہمیت اور فضیلت میں اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا: ’’بقیع سے ستر ھزار لوگ محشور ہوں گے کہ جن کے چہرے چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے‘‘۔ قبرستان بقیع، اسلام کے قدیمی ترین اور ابتدائی ترین آثار میں سے ہے۔ بقیع اولاد رسولﷺ کا مدفن ہے۔ بقیع بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مدفن ہے۔ بقیع چار آئمہ معصومین، امام حسن ؑ، امام سجادؑ، امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کا مدفن ہے۔ ان چار آئمہ معصومین ؑ کی شخصیات کو بیان کرنا ہمارے بس سے باہر ہے چونکہ ان کا مقام اتنا بلند اور بالا ہے کہ غیر معصوم ان کے مقام کا ادراک کرنے سے عاجز ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام ان چار آئمہ میں سے ایک ہیں جو بقیع میں مدفون ہیں۔ اہلسنت کے پہلے درجہ کے عالم دین ’’مسلم‘‘ نے اپنی کتاب صحیح مسلم کی پہلی جلد کے صفحہ نمبر ۱۵ پر جابر بن یزید جعفی سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جابر کہتے ہیں: عندی سبعون الف حدیث عن ابی جعفر عن النبی كلها صحیح۔ "میرے سینے میں امام محمد باقرؑ سے مروی ستر ہزار حدیثیں ہیں جو ساری کی ساری صحیح ہیں"۔بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


جنت البقیع وہ قبرستان ہے کہ جس میں رسول اکرمؐ کے اجداد ،اہل بیت ؑ ، اُمّہات المومنین ؓ،جلیل القدر اصحاب ؓ،تابعین ؓاوردوسرے اہم افراد کی قبور ہیںکہ جنہیں ٨٦ سال قبل آل سعود نے منہدم کر دیا کہ اُن میں سے تو اکثر قبور کی پہچان اور اُن کے صحیح مقام کی شناخت ممکن نہیں!

یہ عالم اسلام خصوصاً شیعہ و سنی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائ، دانشوروں اوراہل قلم کی ذمہ داری ہے کہ اِن قبور کی تعمیرنو کیلئے ایک بین الاقوامی تحریک کی داغ بیل ڈالیںتا کہ یہ اور معنوی سرمایہ اور آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والے اِس عظیم نوعیت کے قبرستان کی کہ جس کی فضیلت میں روایات موجو دہیں، حفاظت اورتعمیر نوکے ساتھ یہاں مدفون ہستیوںکی خدمات کا ادنیٰ سا حق ادا کرسکیں۔

 تاریخ قبرستان جنت البقیع

٨/ شوال تایخ جہان اسلام کا وہ غم انگیز دن ہے کہ جب چھیاسی سال قبل ١٣٤٤ ؁ ہجری کو وہابی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کومنہدم و مسمارکر دیا تھا۔یہ دن تاریخ اسلام میں ''یوم الہدم ''کے نام سے معروف ہے ،یعنی وہ دن کہ جب بقیع نامی تاریخی اور اسلامی شخصیات کے مدفن اور مزاروں کو ڈھا کر اُسے خا ک میں ملا دیا۔

جدّہ کے معروف عرب کالم نویس ''منال حمیدان''لکھتے ہیں:''بقیع وہ زمین ہے کہ جس میں رسول اکرم ؐ کے بعد اُن کے بہترین صحابہ کرامؓ دفن ہوئے اورجیسا کہ نقل کیا گیا ہے کہ یہاںدس ہزار سے زیاد اصحاب رسول ؓمدفون ہیں کہ جن میں اُن کے اہل بیت ،اُمّہات المومنین ؓ.،فرزند ابراہیم،چچا عباس بن المطلب ؓ،پھپھی صفیہ بنت عبدالمطّلب ؓ،اُن کے نواسے حسنؓ،اکابرین اُمت اور تابعین شامل ہیں۔ یوں تاریخ کے ساتھ ساتھ بقیع کا شمارشہر مدینہ کے اُن مزاروں میںہونے لگا کہ جہاں حجا ج بیت اللہ الحرام اوررسول اللہ ؐکے روضہ مبارکہ کی زیارت اور وہاںنماز ادا کرنے والے زائرین اپنی زیا رت کے فوراً بعد حاضری دینے کی تڑپ رکھتے تھے۔ نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت ؐ نے وہاں کی زیارت کی اور وہان مدفو ن افرادپر سلام کیااوراستغفار کی دعا کی۔''(الشر ق الاوسط؛١٥/ ذی الحجہ ١٤٢٦ ؁ ہجری، شمارہ ٩٩٠٩)

تین ناموں کی شہرت رکھنے والے اِس قبرستان ''بقیع،بقیع الغرقد یا جنت البقیع'' کی تاریخ، قبل از اسلام زمانے سے مربوط ہے لیکن تاریخی کتابیںاِس قبرستان کی تاریخ پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہیںلیکن اِس سب کے باوجود جو چیز مسلّم حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ بقیع،ہجرت کے بعدشہر مدینہ کے مسلمانوں کیلئے دفن ہونے کا واحد قبرستان تھا۔شہر مدینہ کے لوگ وہاں مسلمانوں کی آمد سے قبل اپنے مردوں کو دو قبرستانوں''بنی حرام''اور''بنی سالم''میں دفن کیا کرتے تھے ۔(حجۃ الاسلام محمدصادق نجمی؛تاریخ حرم ائمہ بقیع ،صفحہ ٦١ ) بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


فرقہٴ امامیہ جعفریہ

شیعت کا آغاز اورتعد اد ۱۔

عصر حاضر میں شیعہ اثنا عشری فرقہ مسلمانوں کاایک بڑافرقہ ھے ، جس کی کل تعداد مسلمانوں کے تقریباً ایک چوتھائی ھے ۔ اور اس فرقہ کی تاریخی جڑیں صدر اسلام کے اس دن سے شروع ھوتی ھیں جس دن سورہ بینہ کی یہ آیت نازل ھوئی تھی: [1]
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا وھی بہترین مخلوق ھیں۔
چنانچہ جب یہ آیت نازل ھوئی تو رسول خدا (ص)نے اپنا ھاتھ علی کے شانہ پر رکھا اس وقت اصحاب بھی وھاں موجود تھے، اور آپ نے فرمایا : ” یٰا عَلِیُّ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ همْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ؛ اے علی! آپ اور آپ کے شیعہ بہترین مخلوق ھیں ۔ تفسیر طبری ( جامع البیان )
اسی وجہ سے یہ فرقہ - جو امام جعفر صادق(ع) کی فقہ میں ان کا پیرو ھونے کی بنا پر ان کی طرف منسوب ھے- شیعہ فرقہ کے نام سے مشھورھوا ۔

شیعوں کا محل ست ۲

۔شیعہ فرقہ کثیر تعداد میں ایران ، عراق ، پاکستان اور ہندوستان میں زندگی بسرکرتاھے ، اسی طرح اس کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک ، ترکی ، سوریا (شام )، لبنان، روس اور اس سے جدا ھونے ھونے والے جدید ممالک میں موجود ھے ، نیز یہ فرقہ یورپی ممالک جیسے انگلینڈ ، جرمن ، فرانس اور امریکہ ، اسی طرح افریقی ممالک، اور مشرقی ایشیا میں بھی پھیلا ھوا ھے ، ان مقامات پر ان کی اپنی مسجدیں اور علمی ، ثقافتی اور سماجی مراکز بھی ھیں ۔

شیعوں کی ساخت و ساز ۳۔

اس فرقہ کے افراد اگرچہ مختلف ممالک ،قوموں اور متعدد رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ھیں لیکن اس کے باوجود اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کے ساتھ بڑے پیار و محبت سے رہتے ھیں ،اور تمام آسان یا مشکل میدانوں میں سچے دل ا ور اخلاص کے ساتھ ان کا تعاون کرتے ھیں،ا ور یہ سب اس فرمان خدا پر عمل کرتے ھوئے انجام دیتے ھیں: [2] ”مومنین آپس میں بھائی بھائی ھیں ۔ بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں



بشر کا تعلق حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے صحابی حضرت ابو ایوب انصاری (رہ) کی نسل سے ھے بشر حضرت امام ھادی علیہ السلام اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے صحابیوں میں سے تھے پیشہ کے اعتبار سے بشر بن سلیمان غلام اور کنیز وغیرہ کی خرید و فروش کا کام کیا کرتے تھے ۔
ایک رات سامرہ میں بشر بن سلیمان اپنے گھر میں بیٹھے تھے کہ دروازہ پر دستک ھوئی تو پتہ چلا کہ امام ھادی علیہ السلام کا خادم کافور آیا ھے اور کہتا ھے کہ فوراً چلو! حضرت امام علیہ السلام نے بلایا ھے ۔ بشر بن سلیمان بھی جلدی سے تیار ھو کر حضرت امام علیہ السلام کی خدمت میں پہچے ۔ انھوں نے دیکھا کے امام ھادی علیہ السلام اپنے فرزند ارجمند امام حسن عسکری علیہ السلام سے گفتگو میں مشغول ھیں۔
امام ھادی علیہ السلام نے بشربن سلیمان سے فرمایا :” اے بشر تم انصاری کی نسل سے ھو ۔ھماری محبت ھمیشہ سے تمھارے دلوں میں رہتی آرھی ھے تمھاری ھر نسل نے ھماری محبت کو ارث میں حاصل کیااور اب میں چاہتا ھوں کہ ایک راز تم پر آشکار کروں اور تمھیں ایک اھم کام کی ذمہ داری سو نپوں ۔یہ کام تمھارے لیے با عث فضیلت ھو گا اس طرح سے کہ تم سارے شیعوں میں اس فضیلت میں پھل کروگے۔ بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

قال علی ابن الحسین علیہما السلام: ” انت بحمد الله عالمة غیر معلمة فہمة غیر مفهمة[1]
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بحمد اللہ میری پھوپھی (زینب سلام علیہا) عالمہ غیرمعلمہ ہیں اور ایسی دانہ کہ آپ کو کسی نے پڑھایا نہیں ہے.
حضرت زینب سلام علیہا کی حشمت و عظمت کے لئے یہی کافی تھا کہ انھیں خالق حکیم نے علم لدنی ودانش وہبی سے سرفراز فرمایا تھا اور عزیزان گرامی آج کی مجلس کا عنوان ہے ”زینب کربلا سے شام تک زینب ایک فردنہیں بلکہ اپنے مقدس وجود میں ایک عظیم کائنات سمیٹے ہوئے ہیں ایک ایسی عظیم کائنات جس میں عقل و شعور کی شمعیں اپنی مقدس کرنوں سے کاشانہ انسانیت کے دروبام کو روشن کئے ہوئے ہیں اور جس کے مینار عظمت پر کردار سازی کا پر چم لہراتا ہوا نظر آتا ہے زینب کے مقدس وجود میں دنیائے بشریت کی تمام عظمتیں اور پاکیز ہ رفعتیں سمٹ کر اپنے آثار نمایاں کرتی ہوئی نظر آتی ہیں زینب کا دوسری عام خواتینوں پر قیاس کرنا یقینا ناانصافی ہے کیونکہ امتیاز وانفردی حیثیت اور تشخص ہی کے سائے میں ان کی قدآور شخصیت کے بنیادی خدو خال نمایاں ہو سکتے ہیں اور یہ کہنا قطعاً مبالغہ نہیں کہ زینب ایک ہوتے ہوئے بھی کئی ایک تھیں زینب نے کربلا کی سرزمین پر کسب کمال میں وہ مقام حاصل کیا جس کی سرحدیں دائرہ امکان میںآنے والے ہر کمال سے آگے نکل گئیں اورزینب کی شخصیت تاریخ بشریت کی کردار ساز ہستیوں میں ایک عظیم و منفرد مثال بن گئی ہم فضیلتوں کمالات اور امتیازی خصوصیات کی دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو زینب کی نظیر ہمیں کہیں نظر نہیں آتی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ زینب جیساکہ میں نے بیان کیا ہے کہ اپنے وجود میں ایک عظیم کائنات سمیٹے ہوئے جس کی مثال عام خواتین میں نہیں مل سکتی ہے اور یہ بات یہ ایک مسلم حقیقت بن چکی ہے کہ انسانی صفات کو جس زاویے پر پرکھا جائے زینب کا نام اپنی امتیازی خصوصیت کے ساتھ سامنے آتا ہے جس میں وجود انسانی کے ممکنہ پہلوؤں کی خوبصورت تصویر اپنی معنوی قدروں کے ساتھ نمایاںدکھا ئی دیتی ہے۔ 
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


حضرت زینب علیہا السلام اور کربلا کی قیادت
زینب کبریٰ کا اسم مبارک تاریخ بشریت وتاریخ اسلامی میں ہمیشہ کربلاکے ہمراہ رہا ہے کربلا جہان مصائب کی دنیابسی ہے ، کربلاجس جگہ خوشیوں نے دم توڑ دیا ، کربلاپیاس کاوہ نگرہے جس نے حقیقت کے تشنہ کاموں پر معارف کے کوثر لٹائے اسی کربلا کی زندگی کا نام زینب ہے ۔
زینب کو حسین نے یہ عظیم ذمہ داری سونپی کہ کربلاکے تپتے وجود پراپنی رداکا سایہ کر کے ظلم کے سورج کی بے غیرت آرزؤوں کو خاک میں ملادیں ۔اگر زینب کربلا میں نہ ہوتیں اورمدینہ میں امور خانہ داری ہی میں مشغول رہتیں تو حقیقت ، ظلم وبربریت کے پر رعب دروازوں کے پیچھے اپنادم تو ڑ دیتی اور کسی طالب حق وحقیقت کی ہمت نہ ہوتی کہ ظلم کے اس قفل کو توڑ کرجہالت کے قحط زدہ افراد کو نور کی دولت سے زندگی بخشے ۔احسان ہے عالم بشریت پر اس بت شکن کی بیٹی کا جس نے ظالم کے ظلم کی پرواہ کئے بغیر نصرت الہٰی اور ضرورت بشر کو ملحوظ خاطر رکھا اور جس طرح کل علی نے رسول کے سہارے سے بتوں کو توڑ ا تھا اسی طرح زینب نے حسینکے حو صلوں کے آسمان پر چڑ ھ کر ظلم وبربریت کے پر رعب بتوں کوتوڑ کر تاریخ ابراہیمی اور علوی کو دہرایا ۔جس وقت عاشوراکا سورج غروب ہوا سر زمین کربلا میں خون ناحق کے سورج کا طلوع تھا اسی ہنگام بادلوں کی رداچیر کر افق پر چاند نمودارہو الیکن آج چاند کی رونق پہلے جیسی نہ تھی کیونکہ آج یہ چاند ماہ زہراکا سوگوار بن کر طلوع ہوا تھا اس بے رنگ روشنی میں زینب کچھ اسیروں کے ہمراہ بھائی کی مظلومیت کا اسلحہ لیکر ایک ایسی صبح کا انتظار کر رہیں تھیں جس صبح کے سورج کی کرنیں ظلمتِ شب کی بیان گرتھیں زینب کو ایسے ماحول میں جنگ کرناتھی اسی لئے جس طرح کل شب عاشور، حسین نے اصحاب کی کچھ اس طرح تربیت کی تھی کہ کسی بھی صحابی نے تادمِِآخر حسین کی نصرت سے دریغ نہیں کیا اسی طرح شب یازدہم اسراء کی تربیت میں زینب نے کو ئی کسر نہ چھوڑ ی جس کا ثبو ت اسیروں نے راہِ کوفہ وشام میں بڑ ی دیانت سے پیش کیا
ان اﷲشاء یراھنّ سبایا(۱)کا مطلب کیا اس کے علاوہ کچھ اور تھا کہ یہ اسراء نہضت عاشوراکے بے باک مبلغ ہیں .شہر کوفہ میں بے پردہ داخل ہونا ایک غیر ت مند باپ کی باغیرت بیٹی کے لئے آسان نہ تھا لیکن وظائف کی سنگینی نے اس گرانی کو کافور کر دیا اور زینب نے کو فہ میں داخل ہوتے ہی وظائف کی شمشیر کو لبوں کے نیام سے باہر کھینچا اور بھائی کی حمایت میں یہ شعر پڑ ھا : یا هلالا لما استتم کمالا غاله خسفه فابدیٰ غروباً(۲)
اس پہلے حملے سے اہل کوفہ کے لبوں پرتالے لگ گئے اور سکوت کا راج ہو گیالیکن زینب کا مقصد ابھی پورانہ ہوا تھا کیونکہ سکوت ایک مجمل اعتراف ہے علی کی شیر دل بیٹی نے دوسرا حملہ اس شعر کے ذریعے کیا : ماتوھمت یا شقیق فوادی کا ن ھذا مقدرا ًمکتوباً(۳)
یہ وہ وقت تھا جب سکوت نالہ وشیون میں تبدیل ہو گیا ۔زینب نے جامد الفاظ کو خلوص کی آنچ سے ظلم کے خیام کے لئے انگارابنادیا یوں تو درّے کی اذیت خود برداشت کی لیکن غلامانہ ذہنیت واندھی تقلید کے جسم کو اپنی آہ وبکاء سے چھلنی کر دیا ۔اگر کل حسین نے جاگیر دارانہ تمّدن کو تہہ تیغ کیاتو زینب نے راہ کو فہ وشام میں چلکر اپنے شجاع قدموں سے اسے پائمال کیازینب پرگرچہ ظلم وبربریت کے کو ہ گراں ٹوٹے مگر ان کے ذروں سے قصر ظلم کی چولیں ہلادیں حسین اور زینب کا وحدت خیال دیکھو ظلم انگشت بدنداں ہے اگر کسی نے عقیلہ بنی ہاشم کی تفسیری تحریک کا بخوبی مطالعہ کیا ہے تو ا سکے لئے یہ کہنا آسان ہو گا کہ حسین نے اگر قیام کر کے ظلم قلع قمع کیا تھا تو زینب نے پرچم توحید لہرایا ہے زینب وہ حلقہ اتصال ہے جس نے نہضت حسینی کو آئندہ نسلوں تک منتقل کیا ہے حسینی تحریک کا سب سے اہم مقصدکربلا کی بقامیں پوشیدہ تھا اور سبب بقاء کربلا کو زینب کہتے ہیں پس زینب کو کربلا کی حیات کہنا بالکل درست اورصحیح ہے زینب کربلا کی ایک ایسی پیغمبر ہے جس کے بغیر شریعت کربلا سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔
--------------
۱۔بحارالانوار ج !۴۵!ص۱۱۵! (۲)۔گزشتہ حوالہ !ج۴۲!ص۳۶۴ (۳)۔گزشتہ حوالہ!ج۴۵! (۴)۔گزشتہ حوالہ!ج۴۵!ص۱۱۵ آخری تازہ کاری بوقت جمعرات, 14 مئی 2009


تاریخی مناسبت

ابوطالب علیہ السلام، امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے والد بزرگوار اور رسول اللہ (ص) کے چچا اور آپ (ص) کے والد ماجد کے سگّے بھائی ہیں دونوں کی والدہ بھی ایک ہے. انہوں نے اس بارے میں شاعری کی زبان میں فرمایا ہے: لا تخذلا و انصرا ابن عمكما  إخی لامی من بینهم و إبی(1) [بیٹو] اپنے چچا زاد بھائی کو تنہا مت چھوڑو اور اس کی مدد کرو کہ وہ میرے بھائیوں کے درمیان والد اور والدہ دونوں کی طرف سے میرے بھائی کا فرزند ہے.

1. معروف عصر:

جناب ابو طالب (ع) اپنی شخصیت کی عظمت اور ہر لحاظ سے قدآور، طاقتور اور اپنے زمانے میں دین ابراہیم علیہ السلام کے مبلغ تھے.

2. ان کی قابل قبول روایتیں:

انہوں نے عصر جاہلیت میں ایسی نیک روایات کی بنیاد رکھی جن کو کلام وحی کی تأئید حاصل ہوئی. (2) حضرت ابوطالب علیہ السلام قسامہ» کے بانی ہیں جو اسلام کے عدالتی نظام میں مورد قبول واقع ہؤا۔ (3)
نیكوان رفتند و سنت ہا بماند و زلئیمان ظلم و لعنت ها بماند نیک لوگ چلے گئے؛ ان کی سنتیں باقی رہ گئیں جبکہ لئیموں سے ظلم و لعنت کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہا

3. بندہ خدا:

ابو طالب جو عبد مناف» کے نام سے مشہور تھے، اور عبدمناف کے معنی ہیں بندہ خدا» یوں وہ رسول اللہ (ص) کے تیسرے جد امجد کے ہم نام بھی تھے۔ (4)

4. کفر کے خلاف جدوجہد:

وہ اپنے والد ماجد حضرت عبدالمطلب» کی مانند یکتاپرستی کے راستے پر گامزن رہے اور کفر و شرک اور جہل کے زیر اثر نہیں آئے.

5. ان کے ایمان کے دلائل:

ان کی شاعری ان کے طرز فکر اور ان کے ایمان کو واضح کرتی ہے اور اس مضمون کے آخر میں ان کے بعض اشعار بھی پیش کئے جارہے ہیں. بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


جس طرح قیامت تک آنیوالی تمام نسلوں پر چاہے وہ مرد ہوں یا عورت یہ حق بنتا ہے کہ امام حسین کو نہ بھلائیں اور انہیں ہر لمحہ یاد رکھیں ( چونکہ اگر حضرت امام حسین نے کربلا میں قربانی نہ دی ہوتی تو نہ آج اسلام ہوتا اور نہ ایمان ، نہ آج نماز ہوتی اور نہ ہی روزہ و حج ، غرضکہ شعائر الٰہی کے نام سے کوئی چیز باقی نہ ہوتی ) اسی طرح عقیلہ بنی ہاشم حضرت زینب کبریٰ کو بھی کسی لمحہ نہ بھلائیں کیونکہ شہادت امام حسین اور مقصد حسینی کی تکمیل حضرت زینب کبریٰ کی اسیری سے ہوئی ، اگر زینب کبریٰ کی اسیری نہ ہوتی تو کربلا تاریخ کے کسی دور افتادہ اوراق میں گم سم ہو کر محو ہو جاتی ، یا پھر دشمن اسے ایک ی رخ دے کر حقیقت کا گلا گھونٹ دینے میں کامیاب ہو جاتے لیکن یہ جناب زینب کے وجود کا کمال ہے کہ تاریخ کربلا کو ہر تاریخ پر مقدم اور حیات جاودانی بخشی ، جبھی تو فارسی کے ایک شاعر نے کیا خوب کہا : ترویج دین اگرچہ بقتل حسین شد تکمیل آن بموی پریشان زینب است
دین اسلام کی تاریخ اگرچہ حسین کی شہادت سے ہوئی لیکن اس کی تکمیل زینب کی اسیری اور برہنہ سر سے ہوئی
حضرت امام حسین کے اہداف کو مختلف مقام پر خاص طور سے دربار یزید میں اسلامی ملکوں کے نمائندوں کے درمیان ضمیر کو جگا دینے والے بے نظیر خطبہ کے ذریعہ بیان کرنا ، اور بنی امیہ کی حکومت اور اس کے افکار کو رسوائے زمانہ کر دینا دلیری اور شجاعت فقط اور فقط جناب زینب کی ہے ۔
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

ابوطالب علیہ السلام، امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے والد بزرگوار اور رسول اللہ (ص) کے چچا اور آپ (ص) کے والد ماجد کے سگّے بھائی ہیں دونوں کی والدہ بھی ایک ہے. انہوں نے اس بارے میں شاعری کی زبان میں فرمایا ہے: لا تخذلا و انصرا ابن عمکما اخی لامی من بینهم و ابی(1) [بیٹو] اپنے چچا زاد بھائی کو تنہا مت چھوڑو اور اس کی مدد کرو کہ وہ میرے بھائیوں کے درمیان والد اور والدہ دونوں کی طرف سے میرے بھائی کا فرزند ہے.

1. معروف عصر:

جناب ابو طالب (ع) اپنی شخصیت کی عظمت اور ہر لحاظ سے قدآور، طاقتور اور اپنے زمانے میں دین ابراہیم علیہ السلام کے مبلغ تھے.

 2. ان کی قابل قبول روایتیں:

انہوں نے عصر جاہلیت میں ایسی نیک روایات کی بنیاد رکھی جن کو کلام وحی کی تائید حاصل ہوئی. (2) حضرت ابوطالب علیہ السلام قسامہ» کے بانی ہیں جو اسلام کے عدالتی نظام میں مورد قبول واقع ہؤا۔ (3)

نیک لوگ چلے گئے؛ ان کی سنتیں باقی رہ گئیں جبکہ لئیموں سے ظلم و لعنت کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہا 

3. بندہ خدا:

ابو طالب جو عبد مناف» کے نام سے مشہور تھے، اور عبدمناف کے معنی ہیں بندہ خدا» یوں وہ رسول اللہ (ص) کے تیسرے جد امجد کے ہم نام بھی تھے۔ (4)

 4. کفر کے خلاف جدوجہد:

وہ اپنے والد ماجد حضرت عبدالمطلب» کی مانند یکتاپرستی کے راستے پر گامزن رہے اور کفر و شرک اور جہل کے زیر اثر نہیں آئے.

 5. ان کے ایمان کے دلائل:

ان کی شاعری ان کے طرز فکر اور ان کے ایمان کو واضح کرتی ہے اور اس مضمون کے آخر میں ان کے بعض اشعار بھی پیش کئے جارہے ہیں. بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


مختلف مسالک کی دنیا میں یہ ایک غلط مفروضہ قائم ہو چکا ہے کہ خانوادہ اہلبیت اور خاص طور پر کربلا کے شہدا اور مقتدر شخصیات کے بارے میں سب سے زیادہ علم یا عشق ومحبت کسی ایک مخصوص فرقے کو یا مسلک کو حاصل ہے۔
میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی اس میں کم ازکم میں نے اس فرق کو کبھی محسوس نہیں کیا۔ محبت اور عشق دراصل ایک رویہ ہے لیکن اس بات سے انکار ناممکن ہے کہ دنیا بھر میں عشق اور محبت کا ایک ہی رنگ اور ایک ہی ڈھنگ ہے۔ انسانوں سے محبت سے قطع نظر اپنے رب سے بھی محبت کے کتنے ہی انداز ہیں اور میری نظر میں کوئی انداز بھی غلط نہیں۔
یہی سوچ کر میں اپنی استطاعت اور علمی و دینی علوم کے مرتبے سے واقف ہونے کے باوجود کربلاکی اس شیر دل خاتون اور ثانیء بنت رسول پر قلم اٹھانے کی جرآت کی ہے جو صرف مسلم خواتین کے لیئے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی حُریت پسند خواتین کے لیئے ایک مینار نور ہیں۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی حیات طیبہ کو دیکھتے ھیں تو سیدہ زینب سلام اللہ علیہا ایک فرد نہیں بلکہ اپنے مقدس وجود میں ایک عظیم کائنات سمیٹے ہوئے ھیں ۔ ایک ایسی عظیم کائنات جس میں عقل و شعور کی شمعیں اپنی مقدس کرنوں سے کاشانہ انسانیت کے دروبام کو روشن کئے ھوئے ھیں ۔اور جس کے مینار عظمت پر کردار سازی کا ایسا پر چم لہراتا ہوا نظر آتا ھے کہ بی بی زینب کے مقدس وجود میں دنیائے بشریت کی وہ تمام عظمتیں اور پاکیز ہ رفعتیں سمٹ کر ایک مشعل راہ بن جاتیں ھیں ۔
عورتوں کی فطری ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور بنی نوع آدم علیہ السلام کو حقیقت کی پاکیزہ راہ دکھانے میں جہاں مریم و آسیہ وہاجرہ و خدیجہ اور طیب وطاہر صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہم کی عظیم شخصیت اپنے مقدس کردار کی روشنی میں ہمیشہ جبین تاریخ کی زینت بن کر نمونہ عمل ھیں وہاں جناب زینب سلام اللہ بھی اپنے عظیم باپ کی زینت بنکر انقلاب کربلا کا پرچم اٹھائے ہوئے آواز حق و باطل سچ اور جھوٹ ایمان و کفر اور عدل وظلم کے درمیان حد فاصل کے طور پر پہچانی جاتی ہیں ۔


خداوند تبارک تعالیٰ نے معصومین ، انبیاء ، ائمہ اطہار اور بعض غیر معصوم شخصیات کو انسان کے لئے بعنوان اسوۂ مقرر کیا ہے اوریہ حیثیت دیگر عناوین اور مناصب مثلاًامامت اور رسالت سے الگ ایک حیثیت ہے جسے خداوند تبارک تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایاہے۔
الہٰی اسو ے
الٰہی اسوے امت کے لئے ایک دروازہ ہے تاکہ امت اس باب کے ذریعے اس شخصیت سے متصل ہو جسے خدا نے اسوۂ مقرر کیا ہے۔قرآن مجید میں دو شخصیات کو صراحت سے اسوہ ٔکہا گیا ہے، پیغمبر اکرم ۖ اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ ـ لیکن روایات میں تقریباً تمام معصومین کے لئے یہ تعبیر موجود ہے اور اسی طرح خاندان اہل بیت میں سے غیر معصومین شخصیات کے لئے بھی یہ تعبیریں موجود ہیں از جملہ حضرت زینب مسلماً پوری بشریت اور انسانیت کے لئے ایک الہٰی اسوۂ ہیں نہ کہ فقط خواتین کے لئے، اگر ہم یہ کہیںکہ حضرت زینب فقط خواتین کے لئے اسوۂ ہیں تو یہ آپ کی شخصیت کے سلسلے میں بہت کوتاہ اور محدود نظر ہے۔حضرت زینب تمام بشریت اور انسانیت کے لئے ایک جامع اسوہ ٔ ہیں جسے خداوند تبارک تعالیٰ نے مقرر کیا ہے۔ حضرت زینب کو خداوند تبارک تعالیٰ کی جانب سے جو توفیقات، علوم، فضائل اور کمالات نصیب ہوئے ہیں کسی انسان کو بہت کم اس طرح کی توفیقات نصیب ہوئی ہیں آپ کو جو کچھ عطا کیا اس کا امتحان بھی ہوا ہے یہ فقط ادّعا نہیں بلکہ حقیقتاً حضرت زینب ممتحنہ یعنی آزمائش شدہ اور امتحان دی ہوئی بی بی ہیں۔ اس بی بی نے امتحان دے کر اپنے کمالات کو ثابت کیا ہے۔ آزمائشوں اور بلاؤں سے گزری ہیں۔ جس طرح حضرت ابراہیم ـ ایک قرآنی اسوۂ ہیں لیکن اسوۂ ممتحن، خدا نے ابراہیم ـ کو آزمائشوں میں رکھا'' وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِیمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ…'' (بقره١٢٤)
اسی طرح حضرت زینب ایک ممتحنہ اسوۂ ہیں۔ حضرت زینب اور حضرت سیدہ زہرا کے القابات میں سے ایک لقب ممتحنہ ہے یعنی انہوںنے امتحان دیا ہوا اور آزمائشوں سے گزری ہوئی ہیںجیسا کہ ہم بعض چیزوں پر اعتماد کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ یہ مجرب اور امتحان شدہ چیز ہے اسی طرح حضرت زینب نے اپنے کمالات و فضائل کا باقاعدہ طور پر امتحان دیا ہے اور اس امتحان میں اعلیٰ درجہ سے قبول ہوئی ہیں ۔ یہ بہت مہم ہے کہ امتحان دیا تو خداکے نزدیک اس میں اعلیٰ درجے پر فائز ہوئیں''… ِإِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِینَ '' (مائده٢٧)خدا فقط متقین سے قبول کرتاہے۔ امتحان کی توفیق لے لینا اتنا مہم نہیں ہے لیکن اس توفیق کے بعد امتحان دے کر قبول ہوجانا واقعاً مہم ہے ۔ حضرت زینب یعنی عصمت صغریٰ اپنی والدہ ٔ مکرمہ یعنی عصمت کبریٰ کی مانند ممتحنہ ہیں اور دونوں ماں بیٹی امتحان دے کر اس میں قبول ہوئی ہیں۔
شناخت اسوۂ کی ضرورت
ضروری ہے کہ یہ اسوے متعارف ہوں۔ اس کے لیے جتنی کوششیں کی جائیں کم ہیں، اس لئے کہ معصومین اور اولیاء اللہ کی شخصیت کا یہ پہلو بہت سارے عوامل کی وجہ سے مسکوت اور فراموش شدہ رہا ہے۔ اس اسوائیت کے پہلو کو احیاء اور زندہ کرنا ہے۔الحمد للہ، دین اور خصوصاً حضرات معصومین و اولیاء اللہ سے متعلق بہت سارے پہلو زندہ ہیں لیکن کئی پہلو ایسے ہیں جو فراموش شدہ ہیں۔ ابھی انسان بیدار نہیں ہو ا ہے کہ ان پہلوؤں کی طرف بھی ملتفت ہو مثلاً امیر المؤمنین ـ کی شخصیت سے متعلق بہت سارے پہلو ہیں جو ابھی فراموش شدہ ہیں جن کی طرف ابھی توجہ بھی نہیں ہوئی ہے اور نہ انہیں سمجھا گیا ہے۔ ان پہلوؤں مجھنے کے لئے جو ضروری شعور چاہیے وہ ابھی بیدار نہیں ہے۔ بقول شاعر : انسان کو بیدار تو ہو لینے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین یعنی واقعاً زمانہ منتظر ہے کہ انسانیت بیدار ہوجائے تاکہ ان اسوئوں کو پہچانے ، امام حسین ـ کو پہچانے، حضرت زینب کو پہچانے، کربلا اور کربلا کے اسوئوں کو پہچانیں ، اس کے علاوہ اور باقی تمام اسوات کہ پہنچانیں۔
شناخت اسوۂ کیوں ضروری ہے؟
یہ شناخت اس لئے ضروری ہے کیونکہ یہ فراموشی انسانیت کے ضرر میں ہے ، نہ کہ ان شخصیتوں کے ضرر میں ہے۔ ان کی اسوائیت کا پہلو اگر اسی طرح مسکوت و فراموش شدہ رہا تو نسلو ںکی نسلیں خسارے میں گزرتی جائیں گی۔ نسلیں اپنی عمریں گزار کر قبرستان کا رخ کرتی جائیں گی اور نقصان کا سلسلہ جاری رہے گا۔ بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

حضرت سکینہ کامیدانِ کربلا میں جاکر اپنے مظلوم باپ کی لاش کو تلاش کرنا اور جنابِ زینب کا میدان میں آ کرسکینہ کولاشِ پدرسے جداکرکے خیموں میں لے جانا۔
بڑا گھر تھا، ایسا آباد گھر چشم فلک نے کبھی نہ دیکھا ہوگا مگر معلوم نہیں اپنے محاورات میں یہی کہاجاتا ہے کہ کسی کی نظر لگ گئی۔ یہ گھر، ایک وقت آیا کہ اس طرح برباد نہ ہوا ہوگا، اس گھر میں خوشیاں ہوئیں مگر وہ خوشیاں کہ جو خدا کی رضامندی کی وجہ سے تھیں، لیکن اس میں جتنے غم ہوئے اور جتنی مصیبتیں اس گھر پر آئیں، وہ دنیا کے کسی اور گھر پر نہیں آئیں۔ میرے بزرگو! یہ گھر مسمار کیا گیا۔ اس کے رہنے والوں کو نکالا گیا۔ اگر ان کا گھر وہی تھا جہاں چلے گئے لیکن جہاں بھی چلے گئے، لوگوں نے ان کو چین سے نہیں رہنے دیا۔ کسی گھر سے جنازئہ رسول نکلا مگر کس طرح سے نکلا؟ اس طرح سے نکلا، کہنے میں بات آتی ہے، زمانے کا اگر گلہ کروں تو بجا ہے۔ وہ رسول جو ہر ایک شخص کے دکھ اور درد میں برابر شریک ہوتا رہا، اگر معلوم ہوا کہ کوئی بھوکا ہے تو خود نہ کھایا، اُس کا پیٹ بھر دیا۔ اگر کوئی بیمار ہوا تو اُس کی مزاج پُرسی کیلئے خود گئے۔ پھر اعتبار سے کہ سردارِ دو عالم، جن کے احسانات کی کوئی انتہا نہ ہو، ان کے بارے میں اگر غیر مذہب کے آدمی سے کہا جائے کہ اس کا جنازہ نکلا، وہ فوراً کہے گا کہ نہ معلوم کتنے لاکھ آدمی ہوں گے لیکن حضور! جنازہ اس طرح نکلا کہ سوائے اپنے چند آدمیوں کے کوئی جنازے میں نہ تھا۔
اس کے بعد یہی گھر تھا کہ دو تین دن کے بعد جب سیدہ قبر پر پہنچی ہیں اپنے باپ کی، تو یہ کہتے ہوئے پہنچی ہیں کہ بابا! اب وہ فاطمہ نہیں ہوں جو آپ کے زمانے میں تھی۔ کاش! کوئی اتنا کہہ دیتا کہ فاطمہ ! تمہارے باپ کا انتقال ہوگیا، ہمیں رنج ہے۔ کاش! فاطمہ کے دروازے پر آکر لوگ یہ کہہ دیتے کہ فاطمہ ! تمہارے باپ کے اُٹھ جانے کا ہمیں بہت افسوس ہے۔ ذرا بتلائیے تو سہی، جس کی حالت یکا یک اتنی منقلب ہوگئی ہو، اُس پر کیا کچھ گزری ہوگی؟
کیا عرض کروں؟ جانوروں پر اثر پڑا، طیور پراثر ہوا، وہ اونٹنی جس پر جنابِ رسالت مآب سوار ہوا کرتے تھے، آپ کے انتقال کے بعد اُس نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ بہت کچھ کوشش کی گئی لیکن اُس نے بالکل کچھ نہ کھایا۔ آخر کب تک ایک جانور بغیر کچھ کھائے پئے رہ سکتا ہے؟ دو دن کے بعد اس سے کھڑا ہونا مشکل ہوگیا۔ ایک مرتبہ اُس نے اپنی رسی تڑوائی اور سیدھی چلی جنابِ رسالتمآب کی قبر کی طرف۔ قبر کے پاس جاکر اُس نے اپنا رخسار رکھ دیا اور لوگوں نے دیکھا کہ اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ لوگ گئے کہ وہاں سے ہٹائیں مگر وہ نہ ہٹی۔ مجبور ہوکر لوگ آئے جنابِ فاطمہ کے دروازے پر، سیده عالم سلام اللہ علیہا ! آپ کے والد کی اونٹنی قبر پر پہنچ گئی ہے اور وہاں سے اُٹھتی نہیں۔ جنابِ سیدہ چادر اوڑھ کر نکلیں، قبر پر پہنچیں۔ جب اُس نے دیکھا کہ شہزادی آگئیں، آپ نے اشارہ کیا، فوراً اُٹھ کھڑی ہوئی، اپنی جگہ واپس پہنچی۔ جنابِ سیدہ اپنے حجرے میں آگئیںَ تھوڑی دیر کے بعد یہ اونٹنی پھر وہیں پہنچ گئی یعنی ایک بیقراری کا عالم تھا۔ آخر یہ ہوا کہ کئی مرتبہ اسی طرح سے گئی اور جنابِ سیدہ آئیں۔ بعض لوگوں نے چاہا کہ اسے ذبح کر ڈالیں لیکن جنابِ سیدہ نے فرمایا: میں اپنے باپ کی اونٹنی کو، جو اتنی محبت کرتی ہے میرے باپ سے، کبھی بھی ذبح کی تکلیف دینا گوارہ نہیں کروں گی۔ وہ اسی طرح مر گئی، اسے دفن کروایا گیا۔
موٴمنین کرام! دیکھا آپ نے کہ جنابِ رسالت مآب کے اُٹھ جانے کا جانوروں پر یہ اثر پڑا تھا۔ اب آپ بتلائیے کہ بیٹی پر کیا اثر ہوگا اور پھر اس کے ساتھ ساتھ جب یہ عالم دیکھا کہ لوگ اتنے پھر گئے کہ کسی نے آ کر دروازے پر یہ بھی نہ پوچھا کہ فاطمہ ! آپ کس حال میں ہیں اور اگر آئے بھی تو کس مشکل میں آئے، اس کا میں کیا ذکر کروںآ پ کے سامنے؟جنابِ سیدہ گھر میں بیٹھ کر فریادکررہی تھیں کہ بابا! ذرا دیکھئے تو سہی، بابا دنیا والوں نے آپ کی وفات کے بعد ہم سے کس طرح منہ موڑ لیا ہے؟ آنحضور کے بعد معظمہ بی بی کا سارا وقت روتے اور ماتم کرتے ہوئے گزرا۔ اس کے بعد اس گھر سے سیدہ کا جنازہ نکلا اور وہ نکلا چند آدمیوں کے سہارے۔ اس کے بعد سیدہ کے فرزند امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا جنازہ نکلا جس پر تیر برسے۔ آخر میں ایک جنازہ گھر سے تو نہیں لیکن اس گھر میں رہنے والے کا جنازہ یوں نکلا نکلا کیا؟ اُٹھانے والا ہوتا تو نکلتا! کتابوں میں لکھا ہے تیروں نے جنازہ اُٹھایا ۔
جنابِ رسالتمآب کا انتقال ہوا تو فاطمہ زہرا گھر میں تھیں،امیر الموٴمنین موجود تھے، حسنین شریفین موجود تھے ،تسلی دینے کیلئے بنی ہاشم کے کچھ لوگ موجود تھے۔حسین جب شہید ہوئے تو اُن کی بیٹی اور بہن کو کوئی تسلی دینے والا نہ تھا۔ تسلی کو تو جانے دیجئے، ایک چھوٹی سی بچی تھی، وہ اگر اپنے باپ کو یاد کرکے روئی، حاضرین مجلس! سا گناہ ہوگیا لیکن اس کو اس طرح تسلی دی گئی کہ شمر نے طمانچے مارے۔ ایک مرتبہ یہ بچی پہنچ گئی جہاں امام حسین کی لاش پڑی تھی،ہائے بیٹی نے کس طرح باپ کی لاش کو دیکھا؟ جنابِ زینب کو معلوم ہوگیا کہ سکینہ کہیں چلی گئی ہیں تو جنابِ زینب و اُمّ کلثوم دونوں بہنیں مقتل کی طرف چل پڑیں۔ رات کا وقت ہے، چاروں طرف اُداسی کا عالم ہے۔ بی بی نے خیال کیا کہ جس وقت حسین چلے تھے، آخری رخصت کے بعد تو سکینہ دروازے پر کھڑی دیکھ رہی تھی، اُسی طرف ہی گئی ہوگی۔ جب آپ وہاں پہنچیں تو وہاں سکینہ کے رونے کی آواز آئی۔ آواز کی طرف چلیں تو وہی نشیب جس میں حسین شہید ہوئے تھے، وہاں یہ بچی باپ کی کٹی ہوئی گردن سے منہ ملائے کہہ رہی تھی: بابا! آپ کو کس نے شہید کیا؟ مجھ کو کس نے یتیم بنادیا؟ جیسے ہی جنابِ زینب وہاں پہنچیں، گود میں اُٹھایا، تسلی دیتی ہوئی لارہی تھیں کہ پوچھا: بیٹی! تم نے کس طرح پہچان لیا کہ یہ تمہارے بابا کی لاش ہے؟ عرض کیا: پھوپھی اماں! میں رو رو کر کہہ رہی تھی، بابا! آپ کدھر ہیں، اُدھر سے آواز آئی، بیٹی! اِدھر آجا، تیرا باپ اِدھر ہے۔ (
ماخوذ از کتاب: روایات عزامؤلف:علامہ حافظ کفایت حسین نور اللہ مرقدہ )

جناب مسلم جناب عقیل ابن ابوطالب کے فرزند اور عقیل امام علی کے بھائی اس طرح مسلم امام حسین (ع) کے چچا زاد بھائی ہیں آپ کی مادر گرامی کا نام 'علیہ تھا' اس وقت ہمیں جناب مسلم کے تمام حالات زندگی بیان کرنامقصود نہیں ہیں بلکہ آپ کی حیات طیّبہ کے ایک درخشان ترین گوشہ کا جایزہ لیتے ہوئے تاریخ کے اوراق میںپوشیدہ آپ کے سنہرے الفاظ میں لکہے جانے والے کارناموں کو آشکار کرنا ہے۔

اہل کوفہ کے خطوط

امام حسین (ع) کے نام جب کوفہ والوں کی طرف سے امام حسین (ع) کو بلانے کے لئے ہزاروں خط آچکے تو امام حسین (ع) نے جناب مسلم ابن عقیل کو طلب کیا اورآپ کے ساتھ قیس ابن مسہروعبد الرحمن ابن عبدللہ اور بعض دوسرے افرادکو(کہ جنہیں کوفہ والوں نے امام کے پاس اپنا نمائندہ بناکر بھیجا تھا ) اپنا ایلچی معین کیا اور روانگی سے پہلے کچہ امور کی انجام دہی کا حکم دیا۔
الف۔ ہر حال میں خدا سے ڈرتے رہنا۔
ب۔حکومت کے رازوں کو پوشیدہ رکہنا۔
ج۔لوگوں کے ساتھ لطف اور مہربانی کا سلوک کرنا۔
د۔اگرکوفہ کے لوگ آپس میں متحد ہوں تو فورً اامام کو اطلاع دینا۔
اس کے بعد امام نے اہل کوفہ کے نام اس مضمون کا خط لکھا
'اما بعد: بیشک میں اپنے چچا زاد بھائی اور اپنے گہرانے کے مورد اعتماد شخص،مسلم ابن عقیل کو تمھارے پاس روانہ کر رہا ہوں اور میں نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ تمھاری محبت و ہمدلی اتحادوہمبستگی کے بارے میں مجہے جلد از جلد اطلاع دیں بس مجہے اپنی جان کی قسم !امام وہ ہے جو حق کے ساتھ قیام کرے۔ 'والسلام' 
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


حرم حسین کے پاسدار ، وفاؤں کے پروردگار، اسلام کے علمبردار، ثانیِ حیدرِ کرّار، صولتِ علوی کے پیکر ، خاندانِ رسول کے درخشان اختر ، اسلام کے سپاہ سالارِ لشکر ، قمِ علی کے نایاب گوہر، فاطمہ زہرا کے پسر، ثانیِ زہرا کے چہیتے برادر ، ہارونِ کربلا حضرتِ ابوالفضل العبّاس علیہ السلام ۔ کسی کے قلم میں اتنی طاقت کہاں کہ طیّارِ عرشِ معرفت ، اطلسِ شجاعانِ عرب کے بارے میں خامہ فرسایی کر سکے یا انکی فضیلت میں اپنے لبوں کو وا کر سکے ۔ اسلیے کہ انکی فضیلت اور عظمت وہ بیان کر رہے ہیں جو ممدوح خدا ہیں ۔ شخصیت والا صفات کے بارے میں چند روایاتِ معصومین اور چند حقایق تاریخ، قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں : امام سجّاد علیہ السلام فرماتے ہیں :ان للعباس عندالله تبارک وتعالیٰ منزلة یغبته علیها جمیع الشهداء یو م القیامة خدا وند عالم کے نزدیک عبّاس کی وہ منزلت ہے کہ تمام شہدا قیامت کے دن رشک کرینگے ( ۱)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :کان عمّی العباس بن علی نافذ البصیرة ، صلب الایمان ، جاهد مع اخیه الحسین و ابلی بلاء حسنا ومضی شهیدامیرے عمو عباس جو بصیرتِ نافذ اور ایمان محکم رکھتے تھے انہوں نے اپنے بھائی حسین کے ساتھ جہاد کیا اور بلاء نیک کے متحمل ہوئے اور افتخار شہادت سے شرفیاب ہوے ( ۲)
بصیرت نافذ وہ رکھتا ہے جسکی فکر اور رائے قوی ہو اگر عبّاس اس صفت کے حامل نہ ہوتے تو راہِ اسلام میں یہ فداکاری جو آپ نے پیش کی وہ نہ ہوتی۔ استحکام ایمان حضرتِ عباس کی فداکاری سے ثابت ہوتا ہے ۔ مقاتل نے آپ کا رجز جو آپ نے اپنے داہنے ہاتھ کے کٹ جانے کے بعد پڑ ھا ، یوں بیان کیا ہے:
والله ان قطعتم یمنی انّی احامی ابدا عن دینی و عن امام صادق الیقین نجل النبی المصطفیٰ الامین قسم خدا کی اگر میرا داہنا ہاتھ قلم کر دیا تب بھی میں ہمیشہ اپنے دین اور امام جو پیامبر خدا کی یاد گار ہیں حمایت کروں گا۔(۳)
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

12شوذب بن عبداللہ الھمدانی الشاکری:
 جناب شوذب صحابی رسول اورحضرت علی(ع) کے باوفا ساتھی تھے مرحوم’’ زنجانی‘‘ نے علامہ’’ مامقانی‘‘ سے ان کاترجمہ نقل کیا ہے :’’ذکرالعلامة مامقانی فی رجاله شوذب بن عبدالله الهمدانی الشاکری ان بعض من لایحصل له ترجمة تخیل انّه شوذب مولی عابس والحال ان مقامه اجل من عابس من حیث العلم والتقویٰ وکان شوذب صحابیاً واشترک مع امیرالمؤمنین(ع) ۔۔۔‘‘(۷۸)
شوذب علم وتقویٰ کے اعتبار سے بلندپایہ شخصیت تھے کوفہ کی معروف علمی شخصیت ہونے کی وجہ سے اہل کوفہ کے لئے حضرت امیرالمومنین (ع) کی احادیث نقل کرتے تھے امام علی(ع) کے ساتھ تینوں جنگوں میں شریک رہے۔
جب حضرت مسلم بن عقیل کوفہ میں پہنچے توان کی بیعت کرنے کے بعد حضرت امام حسین(ع) تک اہل کوفہ کے مذید خطوط پہنچانے میں عابس شاکری کے ہمراہ رہے۔نہایت مخلص اورعابد وزاھد انسان تھے بڑھاپے کے عالم میں بھی ظلم کے خلاف عملی کردار ادا کیا کوفہ میں حضرت مسلم کی شہادت کے بعد عابس شاکری کے ہمراہ حضرت امام حسین(ع) کی خدمت میں کربلا پہنچتے ہیں جب حنظلہ بن سعد شبامی شہید ہوگئے توعابس نے شوذب سے پوچھا کہ کیاخیال ہے ؟کہتے ہیں تیرے ہمراہ فرزند رسول خد(ص) کی نصرت کے لئے جنگ کرنا چاہتا ہوں تاکہ شہادت کامقام حاصل کرسکوں عابس نے کہا اگر یہ ارادہ ہے توامام (ع) کے پاس جاکر اجازت طلب کروحضرت امام (ع) کی خدمت میں حاضر ہوکراجازت جہاد حاصل کی اورواردجنگ ہوئے چند دشمنوں کوواصل جہنم کیا آخر میں شہید ہوگئے(۷۹) ان الفاظ میں زیارت رجبیہ اورزیارت ناحیہ میں ان پرسلام بھیجا گیاہے السلام علی شوذب مولی شاکر(۸۰)
قابل توجہ امریہ ہے کہ بعض خیال کرتے ہیں کہ’’ شوذب ‘‘،’’عابس شاکر ‘‘کے غلام تھے جبکہ اہل علم حضرات سے پوشیدہ نہیں کہ لفظ مولی صرف غلام کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ’’ ہم پیمان‘‘ کے معنی بھی استعمال کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض محققین نے لکھا ہے کہ چونکہ شوذب مقام علمی ومعنوی کے اعتبار سے عابس پربرتری رکھتے تھے لہذا انھیں غلام عابس نہیں کہہ سکتے بلکہ عابس اوراس کے قبیلہ کے ہم پیمان وہم عہد تھے(۸۱)یہی دلیل علامہ مامقانی سے نقل شدہ ترجمہ میں بیان کی گئی ہے۔ بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

حضرت امام حسین علیہ السلام کاانقلاب پوری امت اسلامیہ کی نجات، توحید کی سربلندی اورانسانیت کی آزادی کاپیغام لے کرآیا تھا لیکن صدافسوس کہ اس انقلاب سے پوری امت اسلامیہ نے وہ فائدہ حاصل نہ کیا جس کے امام حسین علیہ السلام خواہشمند تھے ۔اس کی ایک وجہ دشمن کی جانب سے اس مقدس انقلاب کے خلاف مذموم اام تراشیاں ہیں جن کے ذریعے مقاصدواہداف امام حسین(ع) کوغلط رنگ دے کرسادہ لوح مسلمانوں کواس نورالٰہی سے دوررکھنے کی ناجائزکوشش کی گئی۔بنی امیہ کے حامیوں اورظالم حکومتوں کے آلۂ کار افراد نے انقلاب حسین(ع) پرغیرآئینی اقدام کااام لگاتے ہوئے کہا کہ اس کی نوعیت خلیفۃ المسلمین کے خلاف بغاوت اورلشکرکشی کی ہے چنانچہ ’’شوکانی‘‘نقل کرتے ہیں:’’کچھ علماء حد سے گذرگئے اوروہ فرزند رسول(ص) حضرت امام حسین(ع) کے اقدام کوشرابی، نشے باز اورحرمت شریعت مطہرہ کی ہتک کرنے والے یزید بن معاویہ(ان پرخدا کی لعنت ہو) کے خلاف بغاوت سمجھتے ہیں!!‘‘(۱)
اس اام کاایک جواب یہ ہے کہ یہ بات سلف صالح کی روش کے متضاد ہے چنانچہ تاریخ شاہدہے کہ ا س وقت کے علماء ، صحابہ، تابعین اورت دان سب اس بات پرمتفق تھے کہ حضرت امام حسین (ع) حق پرہیں انھوں نے یزید کے اس غیرانسانی اقدام کی مذمت کی اورکسی نے بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کے اقدام کوخلیفہ المسلمین کے خلاف بغاوت نہیں سمجھا چنانچہ مولانا مودودی لکھتے ہیں:
’’اگرچہ ان(حسین (ع) ) کی زندگی میں اوران کے بعد بھی صحابہ وتابعین میں سے کسی ایک شخص کابھی یہ قول ہمیں نہیں ملتا کہ آپ(ع) کاخروج ناجائز تھااوروہ ایک فعل حرام کاارتکاب کرنے جارہے تھے۔‘‘(۲)
ہم ثابت کریں گے کہ صحابہ وتابعین کا مخالفت کرنا توکجا کثیرتعداد میں صحابہ کرام اورتابعین نے انقلاب حسین(ع) کی حمایت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کردیں بعض مادہ پرست لوگوں نے اس واقعہ کودوخاندانوں کی جنگ قرار دینے کی مذموم کوشش کی اوربعض افراد نے امام حسین(ع) کے مقصد کو’’حکومت طلبی‘‘ سے تعبیر کیاان اعتراضات کے جواب مدلل انداز میں مفصل کتب میں پیش کئے گئے ہیں اس مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ ان پاکیزہ اذہان جنھیں ’’حقائق‘‘ کی تلاش رہتی ہے پرایک خاص زاویہ سے انقلاب امام حسین(ع) کے مقدس ہونے اوریزید کی اسلام دشمنی کوواضح کیاجائے۔بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

جب کھبی کسی شخصیت کے تعارف کی بات آتی ھے تو سب سے پھلے یہ سوال اٹھتا ھے کہ تعلق کس خاندان سے ھے آپ کے والد کا کیا نام ھے والدہ ھیں اور آپ کی نشو ونما کس ماحول میں ھوئی آپ کی تربیت کس نے کی اور کس سے تعلیم حاصل کی تو جب حضرت مسلم کے تعارف کی بات آتی تھے تو باپ کی طرف سے آپ کی نسبت جناب ھاشم تک پھونچتی ھے، عرب میں سب سے اونچا خاندان قریش کا اور قریش میں ھاشمی خاندان تمام خاندانی کرامتوں کا حامل ھے آپ کے والد حضرت عقیل ابن ابی طالب ابن عبد المطلب ھیں،او رآپ رسول اکرم (ص) کے داماد کے بھتیجے ھیں، آپ کی والدہ محترمہ حرّیہ ھیں اور نسب عالیہ کی حامل تھیں وھی عقیل جنھوںنے جنگ صفین میں پورے خاندان کے ساتھ آکر نصرت کی خواھش ظاھر کی تھی، اور حضرت امیر الموٴمنین نے وھیں پر رہنے کے لئے اصرار کیا تھا، شاید وجہ یھی رھی ھو کہ آپ کا ایک بیٹا اور میرا پروردہ مسلم میری خدمت میں ھے، اور شایان شان جاں نثاری کررھا ھے، لہٰذا آل ابو طالب کا محفوظ رہنا بھی اھمیت رکھتا تھا، اور آپ کی بیوی رقیہ بنت امیر الموٴمنین علی علیہ السلام تھیں۔
اس مختصر سے تعارف کے بعد آپ کی فقاہت اور عالِمیت کی بحث آسان ھوجاتی ھے۔
سیدھے لوح محفوظ سے حکم حاصل کرنے والا معلم جبرئیل امین آپ کو علم وفقاہت کے جوھر سکھا رھا تھا تو فقاہتی اورعلمی لحاظ سے کسی کمی کا کوئی امکان باقی نھیں رہ جاتا، اخلاقی اعتبار سے حضرت امیر نے آپ کی تربیت کی تھی اور حضرت کی تعلیم کو حضرات حسنین کے حضور سند کمال حاصل کرلیتے اس طرح سے کہ تعلیم وتربیت مولافرماتے اور حسنین علھما السلام نظارت فرماتے، لہٰذا خطا کا امکان بھی ختم ھوجاتا ھے، نیز حضرت مسلم پر حضرت امیر کے وثوق واطمینان کا عالم یہ تھا کہ جنگ صفین میں حضرت امیر نے آپ کو سپہ سالار بنایا تھا اس سے معلوم ھوتا ھے حضرت امیر کے سامنے حضرت مسلم کی جنگی مھارت کے ساتھ علمی شخصیت بھی مسلم تھی، اور معصومین کے بعد آپ کی عملی اعتبار سے اپنی مثال آپ تھے، نیز آپ کی نشوونما کے لکے وحی کا ماحول مل گیا تھا متعدد معصومین کے درمیان آپ کی تربیت ھوئی او رماحول بھی پاک وشفاف چشمہ کی طرح مل گیا اور آپ اس کو دل ودماغ میں اتارتے چلے گئے، اور شخصیت سازی کے انمول مونگوں او رموتیوں سے جاملے جو علم ومعرفت کے ٹھاٹھیں مارتے ھوئے سمندر کی طرح اپنی گیرائی اور اپنے مستحکم کو عزم وارادہ کا اعلان کررھے تھے، اس کے علاوہ کتاب سفیر الحسین واصحاب الخمس ، محمد علی دخیل واضح انداز میں حضرت مسلم کی فقاہت کے بارے میں درج کیا ھے۔ 
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


آیا حضرت خدیجہ (س) حضرت رسول اکرم (ص) سے قبل شادی شدہ تھیں ؟

اس مسئلہ میں کہ آیا حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے حبالہ عقد میں آنے سے قبل حضرت خدیجہ (س) دوسرے افراد کے ساتھ بھی رشتہ مناکحت سے منسلک رھچکی تھیں یانھیں تاریخ کے مختلف اوراق پر متعدد راویوں کے اقوال میں کثیر اختلاف واقع ھواھے چنانچہ بعض راویوں کے نزدیک رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے شادی کرنے سے قبل حضرت خدیجہ شادی شدہ تھیں اور سابقہ شوھرو ں سے آپ کی اولاد یں بھی ھوئیں تھیں۔
تاریخ کے مطابق آپ کے سابق شوھروں کے نام بالترتیب ”عتیق بن عایذبن عبد اللهفخروی اور”ابوھالہ تمیمیھیں (۲۳)اس کے علاوہ خود آنحضرت کے بارے میں روایت وارد ھوئی ھے کہ ”عائشھکے علاوہ آپ نے کسی کنواری خاتون سے شادی نھیں کی تھی (۲۴)لیکن یہ تمام روایات جویہ ثابت کرتی ھیں کہ حضرت خدیجہ شادی شدہ تھیں اوررسول سے قبل بھی دوسرے کی شریک حیات رہ چکی تھیں ،دلائل اوردوسری روایات معتبرہ کی روشنی میں صحیح نظرنھیں آتیں ،بلکہ تمام تاریخ یاست کے ھاتھوں مسخ کئے جانے کی ناکام کوششوں میںسے ایک کانتیجہ ھیں ۔
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


قافلہ بشریت نے ہر زمانے میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ مظلوم کے سر کو تن سے جد ا کر دینے کے بعد بھی ارباب ظلم کو چین نہیں ملتا بلکہ انکا سارا ہم و غم یہ ہوتا ہے کہ دنیا سے مظلوم اور مظلومیت کا تذکرہ بھی ختم ہو جائے ، اس سعی میں کبھی ورثا ء کو ظلم کا نشانہ بنا یا جاتا ہے تو کبھی مظلومیت کا چرچہ کرنے والو ں کی مشکیں کسی جاتی ہیں مگر اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آخری چارہ کار کے طور پر مظلوم کی نشانی یعنی تعویذ قبر کو بھی مٹا دیا جاتا ہے ، تاکہ نہ علامت باقی رہیگی اور نہ ہی زمانہ ، ظلم و ستم کو یاد کرے گا ّ۔یہ سلسلہ روز ازل سے جاری و ساری ہے ؛مگر جس کر و فر سے اس ظالمانہ روش کو اختیار کیا گیا اسی شدت سے مظلومیت میں نکھار پیدا ہوتا گیا اور پھر سلسلہ مظالم کی یہ آخری کڑی ہی ظالم کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوئی جس کے بعد ظلم و ظالم دونوں ہی فنا ہو گئے ، اس کی جیتی جاگتی مثال کرب و بلا ہے جہاں متعدد د فعہ سلاطین جور نے سید الشھداء حضرت امام حسین (ع) کے مزار کو مسمار کرنا چاہا مگر آج بھی اس عظیم بارگاہ کی رفعت باقی ہے جبکہ اس سیاہ کاری کے ذمہ داروں کا نام تک صفحہ ہستی سے پوری طرح مٹ چکا ہے ۔

لیکن افسوس !گذ شتہ صدی میں ۸ شوال المکرم 1344 هجری ق کو آل سعود نے بنی امیہ و بنی عباس کے قدم سے قدم ملا تے ہوے خاندان نبوت و عصمت کے لعل و گہر کی قبروں کو ویران کرکے، اپنے اس عناد و کینہ کا ثبوت دیا جو صدیوں سے ان کے سینوں میں پنہاں تھا ۔آج آل محمد (ع) کی قبریں بے سقف و دیوار ہیں. یہ قبرستان پہلے ایک باغ تھا ۔عربی زبان میں اس جگہ کا نام ”البقیع الغرقد ہے بقیع یعنی مختلف درختوں کا باغ اور غرقد ایک مخصوص قسم کے درخت کا نام ہے چونکہ اس باغ میں ایسے درخت زیادہ تھے اس وجہ سے اسے بقیع غرقد کہتے تھے اس باغ میںچاروں طرف لوگوں کے گھر تھے جن میں سے ایک گھر جناب ابو طالب (ع) کے فرزند جناب عقیل (ع) کا بھی تھا جسے ”دارعقیل کہتے تھے بعد میں جب لوگوں نے اپنے مرحومین کو اس باغ میں اپنے گھروں کے اندر دفن کرنا شروع کیا تو ”دار عقیل پیغمبر اسلام (ص) کے خاندان کا قبرستان بنا اور ”مقبرہ بنی ہاشم کہلایا رفتہ رفتہ پورے باغ سے درخت کٹتے گئے اور قبرستان بنتا گیا۔
مقبرہ ٴبنی ہاشم ، جو ایک شخصی ملکیت ہے ، اسی میں ائمہ اطہار (ع) کے مزارتھے جن کو وہابیوں نے منہدم کردیا ہے (۲)
اس مقدس قبرستان میں دفن ہونے والے عمائد اسلام کے تذکرے سے قبل یہ بتا دینا ضروری ہے کہ بقیع کا احترام ، فریقین کے نزدیک ثابت ہے اور تمام کلمہ گویان اس کا احترام کرتے ہیں اس سلسلے میں فقط ایک روایت کافی ہے ” ام قیس بنت محصن کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں پیغمبر (ص) کے ہمراہ بقیع پہونچی تو آپ (ص) نے فرمایا : اس قبرستان سے ستر ہزار افراد محشور ہوں گے جو حساب و کتاب کے بغیر جنت میں جائیں گے ، نیز ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی مانند دمک رہے ہوں گے (۳)
ایسے با فضیلت قبرستان میں عالم اسلام کی ایسی عظیم الشان شخصیتیں آرام کر رہی ہیں جن کی عظمت و منزلت کو تمام مسلمان ،متفقہ طور پر قبول کرتے ہیں ۔ آیئے دیکھیں کہ وہ شخصیتیں ہیں :
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


مسلمانوں کے درمیان ام کلثوم کی شادی کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ بن کر رہ گیا ہے کچھ لوگ شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں اور کچھ لوگ متحیر اور سر گرداں ہیں کہ ام کلثوم بنت علی علیہ السلام کی شادی عمر ابن خطاب سے ہوئی ہے ؟ لہٰذا اس بات کو روشن کرنے کے لئے مختصر اور مفید مضمون پیش کر رہے ہیں ۔
ابن عبد البر نے کتاب استیعاب میں آپ کا ذکر کیا ہے اور سبط ابن جوزی نے اپنی کتاب ”تذکرۃ الخواص میں حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کی اولاد کا ذکراس ترتیب کے ساتھ کیا ہے حضرت امام حسن علیہ السلام حضرت امام حسین علیہ السلام ناب زینب اور جناب ام کلثوم ۔علامہ سید محسن عاملی مرحوم نے اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں ذکر کیا ہے کہ آپ کی شادی جناب عون ابن جعفر طیا ر کے ساتھ ہوئی تھی جب کہ استیعاب ،اصابہ،اسد الغابہ جیسی کتابوں میں خلیفہ عمر خطاب کے ساتھ آپ کی شادی کی روایتیں لائی گئی ہیں جو جعلی ہیں۔ جب کہ علامہ محسن عاملی نے تحقیق کے بعد اس بات کا یقین حاصل کیا ہے کہ سرے سے یہ واقعہ ہی وجود میں نہیں آیا اور اس شادی کی روایت من گڑھت ہے اور اسے خلیفہ عمر کے فضائل کے طور پر گڑھا گیا ہے جو صحیح نہیں ہے ۔اس سلسلے میں روایات واخبا رسے متعلق اس قدر اختلافات موجود ہیں جو خود اس واقعہ کی نفی پر دلالت کرتی ہیں ۔اور صاحب ریاحین الشریعہ نے بھی اس روایت سے مختلف اقوال و اخبار کو جمع کرنے کے بعد لکھا ہے کہ میں سرے سے اس عقیدے کا منکر ہوں اور اس پر عقیدہ نہیں رکھتا کہ یہ شادی واقع ہوئی ہو گی ۔ بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


دین اسلام بھی دیگر آسمانی مذاھب کی طرح انسان کو آلودگیوں اور انحراف سے بچاکر اسے الھی راستے یعنی عالم خلقت کے فطری اصولوں پر چلانے کے سوا کوئی اور ھدف نہیں رکھتا بہ الفاظ دیگر اسلام کی ذمہ داری بھی انسان کی تعلیم و تربیت ہے
اسلام کی تعلیمی اور تربیتی روشیں دنیا کی روشوں سے الگ بلکہ بے نظیر ہیں ،مرحوم زرین کوب لکھتے ہیں کہ "عیسائیت کے برخلاف جو صرف دینی نقطہ نگاہ سےانسانوں کی تربیت و تعلیم کا قائل تھا جس کی بناپر ہی یورپ آخر کار بے دین ہوکر رہ گیا ،اسلام دنیوی امور پر بھی خاص توجہ کرتا ہے اور یہ امر باعث ہواہے اس بات کاکہ مسلمانوں کے درمیان دینی اور دنیوی امور سے ترکیب یافتہ متوازن صورتحال وجود میں آۓ (1)
اسلام میں تربیتی احکام انسانی فطرت کے تمام امور کو شامل ہیں ،اسلام ان تمام چیزوں پر جو فطرت انسان سے جنم لیتی ہیں خاص توجہ رکھتاہے ان امور کا انسان اور اس کی زندگی کے حقائق پر مثبت اثر پڑتاہے جس کی نظیر کسی اور مذھب میں نہیں دیکھی جاسکتی۔
اسلامی تعلیم و تربیت کا ایک عدیم المثال نمونہ صدر اسلام کی مسلمان قوم ہے جو گمراہی وجھالت کی کھائیوں سے نکل کر کمال کی اعلی منازل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی تھی اسلام سے پہلے اس کا کام آپس میں جنگ و قتال کے علاوہ کچھہ بھی نہ تھا اسی قوم نے اسلامی تربیت کے زیر اثر ایسی عظیم تھذیب وتمدن کی بنیاد رکھی جو بہت کم مدت میں ساری دنیا پر چھا گئی اوراخلاق و انسانی اقدار کے لحاظ سےایسا نمونہ عمل بن گئی جو نہ اس سے پہلے دیکھا گیا تھا نہ اس کے بعد 2
اسلامی طریقہ تربیت انسانی خلقت و فطرت کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرنےسے عبارت ہے اسلام انسان کی کسی بھی ضرورت سے غفلت نہیں کرتاہے اس کے جسم عقل نفسیات معنویات و مادیات یعنی حیات کے تمام شعبوں پر بھر پور توجہ رکھتاہے ،اسلامی تربیت کے بارے میں رسول اسلام صلی اللہ وعلیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہی کافی ہے کہ آپ فرماتے ہیں مجھے مکارم اخلاق کو کمال تک پہنچانے کے لۓ بھیجا گیا ہے 3.
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں راہِ خدا میں جہاد کرنے کا شوق رکھتا ہوں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا، پس راہ خدا میں جہاد کرو ۔ بے شک اگر تم مارے گئے تو اللہ کے نزدیک زندہ رہو گے اور رزق پاؤ گے اور اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمے ہو گا۔ اگر سلامتی کے ساتھ واپس آئے تو گناہوں سے اس طرح پاک ہوگے جس طرح بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے ۔ اس شخص نے کہا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ، میرے والدین زندہ ہیں اور بڑھاپے کی حالت میں ہیں اور مجھ سے کافی انس رکھتے ہیں۔ مجھ سے جدائی ان کو پسند نہیں۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا اگر ایسا ہے تو ان کی خدمت میں ٹھہر جا۔ قسم اس خدا کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، والدین سے ایک دن رات انس میں رہنا ایک سال کے مسلسل جہاد سے افضل ہے۔ یہ روایت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے منقول ہے کہ فرمایا:
کُنْ بَارَاً وَّ اقْتَصِرْ عَلٰی الجَنَّة، وَاِنْ کُنْتَ عَاقاً فَاقْتَصِرْ عَلَی النَّارَِ"والدین کے خدمت گار بن کر جنت میں مقام حاصل کر لو اور اگر والدین کے عاق ہو گئے تو جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لو۔"

والدین سے نیکی گناہوں کا کفارہ ہے

ماں باپ سے نیکی بہت سارے گناہوں کا کفارہ ہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ ، ایسا کوئی بُرا کام باقی نہیں بچا جس کا میں مرتکب نہ ہوا ہوں۔ کیا میرے لیے توبہ ہے؟ آنحضرت نے فرمایا، جاؤ، باپ کے ساتھ نیکی کرو تاکہ تمہارے گناہوں کا کفارہ ہو ۔ جب وہ نکل گیا تو آپ نے فرمایا اگر اس کی ماں زندہ ہوتی تو اس کے ساتھ نیکی کرنا زیادہ بہتر ہوتا۔ بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں



اکثر والدین رات ہونے پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے سوائے بچوں سے لڑائی جھگڑے کے اور کوئی کام نہیں کیا۔ شاید ہی کوئی ایسا گھر ہوگا جہاں بچوں اور والدین کے درمیان روزانہ کسی نہ کسی بات پر گھر کا ماحول تلخ نہ ہوتا ہو، خصوصاً ان گھروں میں جہاں بچے ذرا بڑے ہوں، وہاں اس قسم کی باتیں معمول بن جاتی ہیں۔ بظاہر یہ بہت معمولی نوعیت کی باتیں ہوتی ہیں لیکن اس سے بعض اوقات بچوں اور والدین کے درمیان غیر مرئی سا کھنچاو پیدا ہو جاتا ہے۔
عام طور پر کھانے اور سونے کے اوقات روزانہ مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ والدین کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ بچے بروقت کھانا کھائیں اور وقت پر سو جائیں لیکن اس معاملے میں بچوں کی جانب سے مسلسل غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ بچے ان معاملات میں خود کو منظم نہیں کر پاتے۔ خصوصاً 6 سے 9 سال کے اکثر بچے اپنے معمولات کا اوقات کار طے کرنے میں ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتے، اسکول کے کام پر توجہ نہیں دیتے، دوستوں میں زیادہ وقت گزارتے ہیں اور گھر دیر سے آتے ہیں۔ والدین کے لئے یہ تمام چیزیں پریشانی کا باعث بنتی ہیں اور ان تمام معاملات کے ساتھ خوش اسلوبی سے نمٹنا خاصا مشکل کام نظر آتا ہے۔ بچوں کے گھر سے باہر کھیلنے کے دوران بھی والدین کو ان کی خیریت سے متعلق تشویش لاحق رہتی ہے۔
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


قال الصادق علیه السلام : امتحنوا شیعتنا عند مواقیت الصلاة کیف محافظتهم علیها و الیٰ اسرارنا کیف حفظهم لها عند عدونا والیٰ اموالهم کیف مواساتهم لاخوانهم فیها ترجمہ :حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمارے شیعوں کا نماز کے وقت امتحان کرو کہ وہ نماز کو کس طرح اہمیت دیتے ہیں اور ہمارے مقامات اور رازوں کے بارے میں ان کی آزمایش کرو کہ وہ ان کو ہما رے دشمن سے کس طرح چھپا تے ہیں اور اسی طرح ان کے مال بارے میں ان کو آزماؤ کہ وہ اس سے اپنے دوسرے بھائیوں کی کس طرح مدد کرتے ہیں ۔
وضاحت :امتحنوا شیعتنا عند مواقیت الصلاة یعنی نماز کے وقت کو اہمیت دیتے ہیں یا نہیں ؟ نمازکے وقت کام کو ٹالتے ہیں یا نمازکو ؟کچھ لوگوں کاماننا ہے کہ نماز خالی وقت کے لئے ہے۔ اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اول وقت رضوان اللہ و آخر وقت غفران اللہ ۔کچھ اہل سنت کہتے ہیں کہ حقیقی مسلمان تو ہم ہیں ،کیوں کہ نماز کو جو اہمیت ہم دیتے ہیں، تم نہیں دیتے ہو ۔نماز کی اہمیت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :اجعل افضل اوقاتک للصلاة یعنی اپنا بہترین وقت نماز کے لئے قرار دو۔ ” کیف محافظتهم علیها یہاں پر کلمہ ”محافظۃ اس معنی میں ہے کہ نماز کے لئے بہت سی آفتیں ہیں جن سے نماز کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ حضرات کو چاہئے کہ عوام کے لئے نمونہ بنیں ۔میں اس زمانہ کو نہیں بھول سکتا جس وقت میں طالب علم تھا اور امام خمینی(رہ) حوزہ علمیہ قم میں مدرسی کے فریضہ کو انجام دے رہے تھے ،مرحوم آیۃ اللہ سعیدی نے ہماری دعوت کی تھی ، اس موقع پر امام بھی تشریف فرما تھے اور ہم لوگ علمی بحث و مباحثہ میں مشغول تھے جیسے ہی اذان کی صدا بلند ہوئی امام بغیر کسی تاخیر کے بلافاصلہ نماز کے لئے کھڑے ہوگئے ۔قانون یہی ہے کہ ہم کہیں پر بھی ہوں اور کسی کے بھی ساتھ ہوں نماز کو اہمیت دیں ،خاص طور پر صبح کی نماز کو۔آج کل ایک گروہ صبح کی نماز کو استصحاب کے ساتھ پڑھتا ہے یہ طلبہ کے شایان شان نہیں ہے ۔” والیٰ اسرارنا کیف حفظهم لها عند عدونا یہاں پر رازوں کی حفاظت سے ، مقام اہل بیت کی حفاظت مراد ہے ۔یعنی ان کے مقام و منزلت کو ،یقین نہ کرنے والے دشمنوں کے سامنے بیان نہ کرنا جیسے (ولایت تکوینی،معجزات ،علم غیب وغیرہ)کیونکہ یہ سب مقام منزلت اسرار کا جزو ہے ہمارے زمانہ میں ایک گروہ نہ صرف یہ کہ اسرار کو بیان کرتا ہے بلکہ غلو بھی کرتا ہے جیسے کچھ نادان مداح زینب اللہی ہو گئے ہیں۔مداح کا مقام بہت بلند ہے اور ائمہ علیہم السلام نے ان کو اہمیت دی ہے جیسے دعبل خزائی بلندمقام پر فائز تھے ۔لیکن کوشش کرو کہ مجالس کی باگڈور نادان لوگوں کے ہاتھوں میں نہ دو ۔مداحوں کو چاہئے کہ اپنے اشعار کی علماء سے تصحیح کرائیں اور غلو آمیز اشعار سے پرہیز کریں، خاصطور پر اس وقت جب عوام کی نظر میں مقام بنانے کے لئے مداح حضرات میں بازی لگ جائے ، ایسے موقع پر اگر ایک مداح تھوڑا غلو کرتا ہے تو دوسرا اس سے زیادہ اور یہ کام بہت خطرناک ہے ۔
” والیٰ اموالهم کیف مواساتهم لاخوانهم فیها مواسات کے لغت کے اعتبار سے دو ریشہ ہو سکتے ہیں ایک ا تو یہ کہ یہ”واسی مادہ سے ہے یا پھر اس کامادہ ”آسی ہے دونوں سے ہی مواسات ہو تا ہے اور یہ مدد کرنے کے معنی میں ہے ۔شیعہ کا اس کے مال سے امتحان کرنا چاہئے کہ اس کے مال میں دوسرے افراد کتنا حصہ رکھتے ہیں ۔ہمارے زمانہ میں مشکلیں بہت زیادہ ہیں :1. بیکاری کی مشکل جس کی وجہ سے بہت سے فساد پھیلے ہوئے ہیں جیسے چوری ،منشیات،خودفروشی وغیرہ 2. جوانوں کی شادی کی مشکل 3. مسکن کی مشکل 4. تعلیم کے خرچ کی مشکل ،بہت سے گھر ایسے ہیں جو بچوں کی تعلیم کا خرچ فراہم کرنے میں مشکلات سے دوچار ہیں ۔ہمارا سماج شیعہ سماج ہے ،بیہودہ مسائل میں انگت پیسہ خرچ ہو رہا ہے جبکہ کچھ لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں بھی فراہم نہیں ہیں، اس لئے ہمیں چاہئے صفات شیعہ کی طرف بھی توجہ دیں ،نہ یہ کہ صرف شیعوں کے مقام اور ان کے اجر و ثواب کو بیان کر یں۔امید ہے کہ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں ائمہ کے فرمان پر توجہ دیں گے اور ان پر عمل پیرا ہوں گے ۔

جو  چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شیعہ ہی نبی(ص) کی صحیح سنت کا اتباع کرتے ہیں وہ رسول(ص) کی حدیث ہے جس کو حدیث ثقلین کہتے  ہیں ارشاد رسول(ص) ہے:" میں تمھارے درمیان دو ۲گران قدر چیزیں چھوڑ نے والا ہوں ، کتاب خدا اور میرے اہل بیت(ع) عترت ، اگر تم ان سے متمسک رہوگے تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ان پر سبقت لے جانے کی کوشش نہ کرنا، ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور ان سے الگ نہ ہوجانا ورنہ برباد ہوجاؤ گے اور (دیکھو) انھیں سکھانے کی کوشش نہ کرنا کیوں کہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔" ( صحیح ترمذی، صحیح مسلم، مستدرک حاکم، مسند احمد بن حنل، کنز العمال، خصائص نسائی ، طبقات ابن سعد طبرانی ، سیوطی ، ابن حجر ،ابن اثیر مزید تفصیل کے لئے المراجعات کا صفحہ ۸۲۰ سے مطالعہ فرمائیں)بعض روایات میں ہے مجھے لطیف و خبیر نے اطلاع دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض پر میرے پاس وارد ہوں گے۔
حدیث ثقلین کو اہلِ سنت والجماعت نے اپنی بیسیوں صحاح و مسانید میں نقل کیا ہے جبکہ شیعوں نے اپنی ہر حدیث کی  کتاب میں نقل کیا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ اہلِ سنت والجماعت گمراہ ہو گئے ہیں کیوں کہ انھوں نے دونوں (قرآن و عترت) سے ایک ساتھ تمسک اختیار نہیں کیا اور اس لئے ہلاک ہوگئے کہ انھوں اہلِ بیت(ع) پر ابوحنیفہ ، مالک ، شافعی، حنبل، کو مقدم کیا ان کی تقلید کی اور عترتِ طاہرہ(ع)  کو چھوڑ دیا۔ان میں سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ : ہم نے قرآن سے تمسک رکھا ہے ، تو اس پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس لئے کہ قرآن میں تمام چیزیں پر کلی طور پر بیان ہوئی ہیں اس میں احکام کی تفصیل کا تذکرہ نہیں ہے اس میں بہت سے احتمالات ہیں ۔ اس کے لئے مفسر  و بیان کرنے والے کا ہونا ضروری ہے اور بالکل یہی کیفیت سنتِ رسول(ص) کی بھی ہے اس کے لئے بھی ثقہ راویوں ، مفسرین اور عالموں کی ضرورت ہے۔اس مشکل کو کوئی حل نہیں ہے مگر یہ کہ ائمہ اطہار(ع) کی طرف رجوع کیا جائے کہ جن کے بارے میں رسول(ص) نے وصیت فرمائی ہے۔
اور جب حدیثِ ثقلین کے ساتھ ان احادیث کا اضافہ کرتے ہیں کہ جن کا وہی مفہوم ہے جو حدیث ثقلین ، مثلا" علی(ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ع) کےساتھ ہے یہ دونوں کبھی جدا یہ ہوں گے ۔ یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوں گے۔" ( مستدرک حاکم جلد۳ ص۱۲۴)نیز فرمایا :علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کےساتھ ہے اور یہ ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ روزِ قیامت حوض پر میرے پاس وارد ہوںگے"۔
( منتخب کنز العمال جلد۵ ص ۳۰ تاریخ ابنِ عساکر جلد۳ ص۱۱۹ تاریخ بغداد ج۱۴ ص۱۲۱ تاریخ الخلفا ابن قتیبہ جلد۱ ص۷۳)
ان تمام چیزوں سے ہماری اور تمام محققین  کی سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ جس نے علی(ع)  کو چھوڑ دیا اس نے قرآنِ کریم  کی حقیقی تفسیر کو چھوڑدیا اور جس نے علی(ع) سے بے اعتنائی کی اس نے حق سے منہ موڑ لیا اور باطل کو اختیار کرلیا کیونکہ حق کے بعد صرف باطل ہی رہ جاتا ہے۔
ہمارے نزدیک یہ بات بھی ثابت ہے کہ اہلِ سنت والجماعت نے قرآن اور سنت نبوی(ص) دونوں کو چھوڑ دیا کیوں کہ انھوں نے حق یعنی علی ابن ابی طالب (ع) کو چھوڑ دیا۔چنانچہ نبی(ص) کی حدیث ہے کہ میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی اور ان میں سے صرف ایک فرقہ باجی ہوگا۔ اور یہ فرقہ وہی ہے جو امام علی(ع) کا اتباع کر کے حق و ہدایت پر گامزن ہوتا ہے۔ علی(ع) کے دشمن سے جنگ اور آپ(ص) کی صلح کے تحت صلح کرتا ہے آپ کے علم میں آپ(ص) کی اقتداء کرتا ہے اور آپ(ص) کی اولاد میں ائمہ میامین پر ایمان رکھتا ہے۔
یہی لوگ تمام مخلوقات سے بہترین ہیں ان کی جزاء ان کے پروردگار کے  پاس ہمیشہ رہنے کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے خدا ان سے راضٰ اور وہ اس سے خوش۔

ہم گذشتہ فصل میں اس حدیث کو بیان کرچکے ہیں جسے بیس سے زیادہ اپنے مشہور مصادر  میں اہلِ سنت  والجماعت نے علی(ع) سے نقل کیا ہے اور اس کے صحیح ہونے کا اعتراف ہے۔ جب انھوں نے اس حدیث کے صحیح ہونے کا اعتراف کر لیا تو حتمی طور پر اپنے گمراہ ہونے کا بھی اقرار کرلیا انھوں نے ائمہ اہلِ بیت(ع) سے کو ئی واسطہ نہیں رکھا اور اپنے فضول مذاہب کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لیا کہ جن پر نہ خدا نے کوئی دلیل نازل کی ہے اور نہ حدیث نبوی(ص)  میں ان کا وجود ہے۔
تعجب تو آج  کے علمائے اہل سنت پر ہے وہ اس زمانہ میں بھی کہ جس میں علمی بحث و تحقیق کے بے پناہ وسائل موجود ہیں اور بنی امیہ کو ہلاک ہوئے بھی ایک عرصہ گذر گیا ہے لیکن وہ اب بھی تونہ نہیں کرتے ہیں۔ اور خدا کی طرف رجوع  نہیں کرتے ہیں تاکہ خدا بھی ان کے شامل حال ہوجائے۔ " اور جو شخص تونہ کرے اور ایمان لائے نیک کام انجام دے اور ثابت قدم رہے تو میں اسے ضرور بخش دوں گا۔" ( طہ/۸۲) اور آج جبکہ لوگ ایسے زمانہ میں زندگی گذار رہے ہیں کہ جس میں ایسی خلافت نہیں ہے جو زبردستی لوگوں سے بادشاہ کا اتباع کرائے تو پھر حق کو اپنانے کے لئے سی چیز  مانع ہے۔ اور کسی بھی ملک کا بادشاہ دینی امور میں اس وقت تک مداخلت نہیں کرتا تا جب تک اس کی کرسی محفوظ ہے وہ ڈیموکریسی اور ان کے حقوق کو بہتر سمجھتا ہے کہ جس میں ضمنی طور پر عقیدہ اور فکر کی آزادی بھی موجود ہے۔

 کتاب اللہ و عترتی یا کتاب اللہ و سنتی؟

اس موضوع پر ہم اپنی کتاب" معالصادقین" میں بحث کرچکے ہیں۔ اختصار کے ساتھ یہاں اتنا عرض کردینا چاہتے ہیں کہ یہ دونوں حدیثیں ایک دوسرے کی نقیض نہیں ہیں کیوں کہ نبی(ص) کی صحیح سنت عترتِ طاہرہ(ع) کے پاس محفوظ ہے اور گھر کی بات گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں پھر علی ابن ابی طالب(ع)  سنتِ نبوی(ص) کے باب ہیں۔ وہ راوی اسلام کہلوانے کے زیادہ حق دار ہیں نہ کہ ابو ہریرہ ، کعب الاخبار اور واہب بن منبہ۔ بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

قرآن کریم کی متعدد آیات و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ استغفاراور ترک گناہ انسان کے مال اور معاشرے کی تعمیر و آبادی  وغیرہ  میں فراوانی ، وسعت اور خوشبختی کا باعث ہے جبکہ اس کے  برعکس خدا کی نافرمانی اور دوسروں پر ظلم کرنا،فقر و بدبختی کا سبب بنتا ہے۔  اس معیار کی بنیاد پر بہت سارے افراد جو اپنی زندگی میں متعدد مشکلات میں مبتلا ہیں وہ اپنے اعمال اور کردار پر  توجہ کرتے ہوئے ، قرآن مجید کے شفابخش نسخہ  کے ذریعہ، اپنی مشکلات اور فقر و تنگدستی  سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔

فقر و مصیبت سے گناہ کا تعلق
قرآن کریم سورہ شوریٰ آیت ۳۰ میں فرماتا ہے:وَما اَصابَکُمْ مِنْ مُصِیبَهٍ فَبِما کَسَبَتْ اَیدِیکُمْ وَ یعْفُو عَن كَثِیرٍ(1)اور تم پر جو مصیبت آتی ہے وہ خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آتی ہے اور وہ بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔
ہر مصیبت اور گرفتاری جس میں آپ مبتلا ہوتے ہیں وہ آپ کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے؛ البتہ یہ سب کچھ  نہیں ہے بلکہ ان میں سے بعض اثرات ہیں جو انسان تک پہنچتے ہیں اور باقی اثرات معاف کر دیے جاتے ہیں ’’وَ یعْفُوا عَنْ كَثِیرٍ‘‘’’ اور وہ بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے ‘‘۔ آیہ شریفہ اچھی طرح بتا رہی ہے کہ یہ مصائب اور عقوبتیں ایک قسم کی سزا اور خداوند متعال کی طرف سے بندے کو خبردار کرنے کے لےہیں۔(اگرچہ کچھ موارد استثنا ہیں) اس ترتیب سے دردناک حوادث اور زندگی کی مشکلات کا فلسفہ واضح ہوتا ہے۔
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


قرآن مجید کے سورہٴ مریم میں جناب زکریا کی دعا اور تمنا کا تذکرہ ملتا ہے جس سے جناب یحییٰ پیدا ہوئے، حضرت فاطمہ بنت اسد کی دعا اور تمنا سے حضرت علی نے دنیا کو زینت بخشی اور حضرت علی کی دعا اور تمنا سے قمر بنی ہاشم ،علمدار کربلا، سقائے حرم، عبد صالح حضرت عباس نے دنیا کو رونق بخشی،حضرت عباس کی تاریخ ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہےلیکن سن ولادت میں کوئی اختلاف نہیں ہے تمام محققین نے حضرت عباس کی ولادت سن ۲۶ ہجری میں بیان کی ہے،
ہندوستانی علماء نے حضرت عباس کی تاریخ ولادت میں اختلاف کیا ہے کسی نے ۱۹ جمادی لثانی،کسی نے ۱۸/ رجب، کسی نے۲۶/جمادی الثانی بیان کی ہے لیکن اہل ایران۴ شعبان پر متفق ہیں،جو مطابق ہے ۱۸/مئی ۶۴۷ء بروز منگل،آپ کی ولادت کے ساتویں روز آپ کا عقیقہ کیا گیا اور عباس نام رکھا گیا،
عباس عبس مصدر سے ہے جس کے معنی تیوری چڑھانا،ترش رو ہونا،چیں بجبیں ہونا ہے اور اصطلاح میں بپھرے ہوئے شیر کو عباس کہتے ہیں،سن ۴۰ ہجری میں حضرت علی نے سر پر ضربت لگنے کے بعد آخری لمحات میں اپنے بیٹوں منجملہ حضرت عباس کو وصیت و تاکید فرمائی کہ :رسول اللہ کے بیٹوں حسن و حسین سے منھ نہ موڑنا پھر تمام اولاد کا ہاتھ امام حسن کے ہاتھ میں دیا اور حضرت عباس کا ہاتھ امام حسین کے ہاتھ میں دیا، جیسا کہ حضرت علی کی تمنا سے ظاہر ہے آپ نے حضرت عباس کی تربیت میں ایثار و فدا کاری کوٹ کوٹ کر بھردی تھی، حضرت علی مسلسل حضرت عباس سے اس کا اظہار فرماتے رہتے تھے کہ تمہیں ایک خاص مقصد کے لئے مہیا کیا گیا ہے ،تمہارا مقصد شہادت کے علاوہ اورر کچھ نہیں ہے۔
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

آپ کی فضیلت کے لئے وہ دعا کافی ھے جسے حضرت امام جعفرصادق علیه السلام نے حضرت عباس علیہ السلام کی زیارت کے موقع پر اذن دخول میں پڑھی جس کے الفاظ یہ ھیں : اے فرزند امیرالمومنین! ”خدااس کے مقرب رشتوں ،رسولوں ،صالح بندوں تمام شہداء وصدیقین کے پاک وپاکیزہ سلام ھرصبح وشام آپ پر ھوں حضرت امام جعفرصادقں نے حضرت احدیت کے سلام سے شروع کیا،کارزارکربلامیں حضرت عباس ں نے اپنے بھائی امام حسین وحجت خداکی تصدیق کرکے مرتبہ حق الیقین حاصل کیا،وفاداری کامظاھرہ انسان یاقرابت وبرادری کی وجہ سے کرتا ھے، یا اس لئے کرتا ھے کہ خدانے واجب قراردیا ھے ،کہ اس کے اولیاء سے وفاداری کی جائے، حضرت امام جعفرصادق ں کی زیارت کے فقرات سے وا ضح ھوتاھے ،کہ حضرت عباس علیہ السلام نے فقط بھائی ورشتہ داراورفرزندرسول سمجھ کرامام حسین کی نصرت نھیں کی بلکہ آپ امام حسین علیہ السلام کوحجت خدا اورامام علیہ السلام واجب الطاعة سمجھ رھے تھے ،اگرچہ کربلا کے ھر شھید نے دشت نینوا میں کسی طرح نصرت امام حسین علیہ السلام میں دریغ نھیں کیا،
لیکن یہ سارے شھید اپنی ساری قربانیوں کے باوجودشھیدعلقمہ کے ھم مر تبہ نھیں ھوسکتے ،کیونکہ آپ کی بصیرت راسخ، آپ کاعلم وافر، آپ کاایمان محکم، آپ کاکردارمضبوط،اور آپ کامقصدعالی تھا،لہٰذاامام جعفرصادق ں نے مذکورہ بالاالفاظ میں آپ کومخاطب فرمایا، کہ یہ فضیلت قمربنی ھاشم سے مخصوص تھی جس میں کربلاکا کوئی دوسرا شھیدشریک نھیں تھا۔[i]
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں



ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عورتوں کے سماجی ملنے جلنے یا ملازمت یا تجارت کی راہ میں پردہ حائل ہے؟

اس کا جواب منفی میں ہے یعنی ہر گز ایسا نہیں ہے کہ پردہ عورتوں کے سماجی مسائل یا ملازمت یا تجارت  میں حائل ہو۔ بلکہ ایک عورت پردہ کرکے ہر جگہ جا سکتی ہے اور تقریبا ہر کام کر سکتی ہے۔ عورت اپنے پردے کا خیال رکھتے ہوئے پولیس ، ڈاکٹر یا پائلٹ کے فرائض بھی انجام دے سکتی ہے۔ جو عورتیں برقع کو بطور پردہ استعمال کرتی ہیں وہ اپنے برقعوں بلکہ صرف نقاب کے ڈیزائینوں میں مناسب فرق کر کے بہت سے کام انجام دے سکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ با پردہ عورت کو چلنے پھرنے اور کام کرنے کی جو سہولت ہے وہ بے پردہ عورت  کو نہیں ، پردے کی بدولت نادار خواتین بھی معمولی لباس کے باوجود عزت سے رہ سکتی ہیں۔یہ غریب، نادار اور مفلس عورتوں کا وفادار محافظ بھی ہے۔

ذرا اس عورت سے پوچھ لیا جائے جو پردہ نہیں کرتی۔ وہ گھر سے باہر نہیں جاسکتی، جب تک اس کے پاس صاف ستھرے استری کئے ہوئے مناسب کپڑے نہ ہوں۔ بے شک یورپ اور امریکہ جیسے ممالک کی عورتیں درجنوں کپڑے رکھتی ہیں اور رکھ سکتی ہیں۔ لیکن یہ موقع افریقہ اور ایشاءمیں اس کی غریب بہن کو نصیب نہیں۔ ایک با پردہ عورت جانتی ہے کہ اس کے پاس ایک طلسمی غلاف ہے جو لباس کے ہر عیب اور ہر کمی کو چھپا لیتا ہے۔ ذرا اس عورت سے پوچھ لیا جائے جو برقع سے آزاد ہے۔ کیا وہ حمل کے تیسرے مہینے سے لیکر نویں مہینے تک دیکھنے والوں کی نگاہوں سے اپنی کیفیت کو چھپا سکتی ہے۔ہر گز نہیں بلکہ اس کا راز عیاں ہو جاتا ہے۔ اس کے بر خلاف چادر یا برقع پوش عورتکے پاس ایک طلسمی غلاف ہے جو اس کا راز ایک حد تک چھپا سکتا ہے۔مغربی ممالک میں ایسے نہ لباس کی تلاش سر گرمی سے جاری ہے جو حاملہ عورت کے گرد و پیش کو عوام سے چھپا سکے۔ البتہ محرم او ر نا محرم کا سوال عیسائیسوں میں نہیں ہے۔ بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


حیاء نفسانی صفات میں ایک اہم صفت ہے جو ہماری اخلاقی زندگی کے مختلف شعبوں میں بہت زیادہ اثر رکھتی ہے. اس تاثیر کا اہم ترین کردار، خود کو محفوظ رکھنا ہے۔
حیاءلغت میں شرم وندامت کے مفہوم میں ہے اور اس کی ضد ''وقاحت'' اور بے حیائی ہے. (١)
علماء اخلاق کی اصطلاح میں حیاء ایک قسم کا نفسانی انفعال اور انقباض ہے جو انسان میں نا پسندیدہ افعال کے انجام نہ دینے کاباعث بنتا ہے اور اس کا سر چشمہ لوگوں کی ملامت کا خوف ہے. (٢) آیات و روایات میں ''حیاء '' کے مفہوم کے بارے میں مطالعہ کرنا بتاتا ہے کہ اس حالت کی پیدائش کا مرکز ایک آ گا ہ ناظر کے سامنے حضور کا احساس کرنا ہے، ایسا ناظر جو محترم اورگرامی قدر ہے.قابل ذکر ہے کہ حیاء کا اہم ترین کردار اور اصلی جوہر برے اعمال کے ارتکاب سے روکنا ہے، لامحالہ یہ رکاوٹ نیک اعمال کی انجام دہی کا باعث ہوگی.

حیاء کی اہمیت:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حیا کو انسان کی زینت شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بے حیائی کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اس کو نا پسند اور برا بنا دیا اور حیاء کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اسے اس نے آراستہ کردیا.(3)حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے: جو حیاء کا لباس پہنتا ہے کوئی اس کا عیب دیکھ نہیں پاتا. (4 ) اور دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: حیاء اختیار کروکیونکہ حیا نجابت کی دلیل و نشا نی ہے. (5)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام حیاء کے مرتبہ کو اخلاقی مکارم میں سر فہرست قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: مکارم اخلاق میں ہر ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں، خدا وندعالم ہر اس انسان کو جو ان مکارم اخلاق کا طالب ہے دیتا ہے، ممکن ہے کہ یہ مکارم ایک انسان میں ہوں لیکن اس کی اولاد میں نہ ہو، بندہ میں ہو لیکن اس کے آقا میں نہ ہو (وہ مکارم یہ ہیں ) صداقت و راست گوئی، لوگوں کے ساتھ اچھائی برتنا، مسکین کو بخشنا، خوبیوں کی تلافی، امانت داری، صلہ رحم، دوستوں اور پڑوسیوں کے ساتھ دوستی اور مہربانی ،مہمان نوازی اور ان سب میں سر فہرست حیاء ہے. (6)
حضرت علی نے حیاء کے بنیادی کردار کے بارے میں فرمایا: ''حیاء تمام اچھی صفات اور نیکیوں تک پہنچنے کا وسیلہ ہے. (7) حیا ء کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو حیاء نہ رکھتا ہو اس کے پاس ایمان نہیں ہے. (8)
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


ماں کے حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں
ماں اس ہستی کا نام ہے جو زندگی کے تمام دکھوں اور مصیبتوں کو اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے۔ اپنی زندگی اپنے بچوں کی خوشیوں، شادمانیوں میں صَرف کرتی چلی آئی ہے اور جب تک یہ دنیا قائم و دائم ہے یہی رسم جاری رہے گا۔یوں تو دنیا میں ہر انسان چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، چاہے کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو ماں ہر ایک  کے لیئے قابلِ قدر ہے۔ مگر خاص طور پر ہماری مشرقی ماں تو ہوتی ہی وفا کی پُتلی ہے۔ جو جیتی ہی اپنے بچوں کیلئے ہے ۔ ویسے تو دنیا نے ماں کیلئے ایک خاص دن کا تعین کر دیا ہے( 1)  چونکہ ہم حضورِ اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امتی ہیں اور اسلام ہی ہمارا مکمل مذہب ہے اس لئے یہاں یہ ذکر ضرور کروں گا کہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں اللہ کی طرف سے ماں دنیا کا سب سے خوبصورت تحفہ ہے۔ ماں تو ایک ایسا پھول ہے جو رہتی دنیا تک ساری کائنات کو مہکاتی رہے گی۔ اس لئے تو کہتے ہیں کہ ماں کا وجود ہی ہمارے لئے باعثِ آرام و راحت، چین و س، مہر و محبت، صبر و رضا اور خلوص و وفا کی روشن دلیل ہے۔(2 )
مقالہ حاضر ایک فارسی مقالہ کا ترجمہ ہے جسے آیت اللہ اسماعیلی نے تحریر کیا تھا۔ استاد محترم قبلہ حجۃ الاسلام شیخ غلام قاسم تسنیمی کے زیر نظر میں نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اصل مقالہ کی نسبت ترجمہ میں چند باتوں کا خیال رکھا:- 1- کسی بھی آیت، حدیث یا عربی عبارت کو متن میں ذکر نہیں کیا بلکہ انہیں پاورقی میں درج کیا تاکہ اہل تحقیق حضرات کے لئے آسان ہو جائے۔ 2-  حوالہ دیتے وقت  قدیمی کتابوں کو زیادہ ترجیح دیا۔ 3- بہت سی احادیث جو اصل مقالہ میں واضح نہیں کیا تھا انہیں واضح کر کے  بمعہ حوالہ ذکر کیا۔ 4- آیتوں کا ترجمہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ کی بلاغ القرآن سے لیا ہے۔5۔ آخر میں کتابنامہ کو اضافہ کیا تاکہ اہل تحقیق کے لئے ہر مشکل کا سد باب ہو جائے۔
قم حرم اہل بیت علیہم السلام، ربیع الثانی  1437 ہ ق۔
مقدمہ مولف
ماں باپ اپنی اولاد کے لئے خدا کے فضل و کرم کا ذریعہ ہیں، اور خدا کی رضایت ان کی رضایت میں ہے؛ اسی لئے خدا نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا وہاں والدین  کے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا پس ہمیں بھی چاہیئے کہ  ان کے حقوق کو پہچان لیں اور انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں۔ البتہ ان کے حقوق کو ادا کرنا اس بات پر  منحصر ہے کہ پہلے ہم ان کے حقوق کو جان لیں۔ بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

اسلام میں خواتین کا کردار

خواتین کے  کردار کے حوالہ سے مختلف قسم کے کتابیں موجود ہین، اسی طرح  مجلات  و مقالات   گوناگون دست بہ دست  پائے جاتے ہیں ۔ میں نے اس مقالہ میں   ان مباحث کے بارے میں  بحث کیا۔

مقدمہ

تاریخ اسلام میں دقت  سے غور و فکر کرنے سے    خواتین کے حیرت  انگیز  واقعات ملتے ہیں   اور ہماری تاریخ گواہی دیتی ہے  کہ  عورت  ہمیشہ  مظلوم تر  رہی  ہے اور اسی  مظلومیت  میں آرہی ہے ۔ اول سے  لیکے صدر اسلام تک کسی بھی مذہب نے  ان  پر رحم نہیں کیا، ان کے حقوق نہیں دئے     لیکن پیغبر اسلام ﷺ   دنیا میں تشریف لائے  اور اللہ تعالی کا پسندیدہ دین  "دین اسلام " پیش کیا  تو اس مذہب حق نے سب سے پہلے  قید و بند میں تڑپتی ہوئی عورت کی رہائی اور اس کی آزادی کی خوش خبری سنائی  اس کے ساتھ ساتھ دین الہی میں عورت کو مرد کے برابر درجہ دیا   یہاں تک کی  بیٹے کے لیے ماں کے قدموں کو حصول جنت کا زریعہ و سبب بنایا۔
اس میں کو ئی شک نہیں ہےکی عورت  اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت اور  رحمت ہے   اس کے بغیر  کائنات اور مرد  دونوں ا دھورے   ، ناقص اور نامکمل  رہتے ہیں اس لیے  علامہ محمد اقبال نے کہا "وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ "  (1) اسی طرح  عورت کے بارے میں امام خمینی فرماتے ہیں "  مرد در دامن زن بہ معراج می رود " (2) اگر  خواتین اور خواتین کا کردار معاشرہ میں نہ ہو تو زندگی کا سارا سفر بے کیف ہوجاتا  ۔ انہوں نے پیار محبت  فکر و حکمت کے لبریز باتوں سے  گلشن کائنات کو روشن کردیا ہیں   بادشاہوں کی محفلوں میں رقص کرنے والی عورتیں ، بازاروںمیں دوسروں کے لیے زینت  بن کے آنے والے  عورتوں کو عورت  نہیں  کہتے   کیو کہ  ایسے خواتین   انسانیت کے  دائرہ سے خارج ہو کے بے حیائی کے حدود میں داخل ہوتی ہے  ۔ اصل وحقیقی عورت    جو ہے وہ قرآن حکیم   اورارشادات ایمہ معصومین  ؑ  کے روشنی میں دیکھی دیتی ہے ۔
اگر تاریخ کے مختلف زاویوں کے جائزہ لے تو  مختلف اقوام میں مختلف قسم کے خواتین  نظر آجاتی ہے ان میں سے کچھ ایسے ہیں  جنھون اسلام کے احکام پر عمل کرتے ہوئے   ایک اچھی زندگی بنائی اور ایمان وعمل کے  دستورات سے    انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مضبوط قلعہ  تعمیر کئے، اسی طرح  دوسرے خواتین کے لیے نمونہ عمل بنے۔ تاریخ اسلام کے صحفات   پہ ایسے خواتین کے بھی ذکر  ہیں جن کو   پیامبر اسلام   ﷺ  نے جنت کی  خوشخبری دی ہے  اور انکے  نفوس کے صاف  وباطن کی گواہی بھی دی  ، یعنی  حضور اکرم  ﷺ  نے ان کو   سند عطا فرمائی    کی جس سے وہ اللہ کے حکم سے جنت میں داخل ہونے کے  حقدار بن  گئی۔ بنابر این  مثبت کردار اور پاک وپاکیزہ افکار  و اقوال کی ملکہ عورت  مرد سے کسی لحاظ سے کم نہیں ہے  بلکہ  تاریخ اسلام ایسے  پاک دامن  خواتین کو خراج تحسین پیش کرتی ہے ۔ قرآن پاک اورروایات  معصومین ؑ   میں اچھی عورتوں کا تزکرہ موجود ہے   ان میں سے کچھ کے حالات اختصار کے ساتھ   اس مقالہ میں ذکر ہوگا۔
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


اسلام نے عورت کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے اور اسکا مقام و مرتبہ بیان کیا ہے ۔ اسے سر بلند کیا ہے ، عالی مقام دیا ہے اور اسکی قدر و منزلت بڑھائی ہے ۔ عورت کا اسلام میں بڑا بلند مقام ہے ۔ اسے ایک قابل احترام شخصیت قرار دیا گیا ہے اسکے حقوق متعین کۓ گۓ ہیں اور اسکے فرا‏‏ئیض و واجبات طے کۓ گۓ ہیں ۔
مرد و زن میں یکسانیت : اسلام میں عورت کو مرد کی ھم جنس ھم نسل قرار دیا ہے کہ وہ دونوں ایک ہی اصل سے پیدا کۓ گۓ ہیں تاکہ دونوں اس دنیا میں ایک دوسرے سے انس و محبت پائییں اور خیر و صلاح کے ساتھ سعادت و خوشی سے سرفراز ھوں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے : { عورتیں مردوں کی ھم جنس و ھم نسل ہیں } ( مسند احمد ۔ صحیح الجامع = 1983 )
اسلامی تعلیمات کی رو سے شرعی احکام میں عورت بھی مرد کی طرح ہے ، جو مطالبہ مردوں سے ہے وہی عورت سے اور جن افعال کے کرنے یا نہ کرنے پر جو مرد کو ہے وہی عورت کو بھی ہے ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے : {اور جو نیک کام کرے گا ، مرد ھو یا عورت ، اور وہ صاحب ایمان بھی ھو گا تو ایسے لوگ جنت میں داخل ھونگے ، اور انکی تل برابر بھی حق تلفی نہیں کی جاۓ گی } ( النساء : 144 )
جبلی و فطرتی فرق : عورت زندگی کے تمام معاملات میں امانتیں سنبھالنے میں بھی مردوں کی طرح ہے سواۓ ان معاملات کے جن میں مرد و زن میں فرق کرنے کا مطالبہ کوئی بشری ضرورت یا فطرت و جبلت کریں ، اور اسلام میں بنی آدم کی عزت و تکریم کے اصول و قواعد کا یہی تقاضا ہے ۔ چنانجہ ارشاد الہی ہے : { ھم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور انھیں خشکی و تری میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی } ( بنی اسرائییل : 70 )
عورت ایک نعمت : برادران ایمان !اسلام نے عورت کی فضیلت اسکا مقام و مرتبہ اور رفعت و شان بیان کرتے ھوۓ اسے ایک عظیم نعمت اور اللہ کا ایک قیمتی تحفہ قرار دیا ہے اور اس کی عزت و تکریم اور رعایت و نگرانی یا خاص خیال رکھنے کو ضروری قرار دیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے :{ آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہی صرف اللہ تعالی کے لۓ ھے وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے ، جسے چاہتا ہے ، بچیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا بیٹوں ( اولاد نرینہ ) سے نوازتا ہے اور کسی کو نرینہ و مادینہ دونوں طرح کی ملی جلی اولاد عطا فرماتا ہے ، اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے ۔ }( الشوری : 50 )
مسند امام احمد میں ہے : { جس کے بچی پیدا ھوئی ، اس نے اسکو زندہ درگور نہیں کیا ، اس کی اھانت و تحقیر نہیں کی اور نہ ہی لڑکے کو اس پر ترجیح دی ، اللہ تعالی اسے جنت میں داخل کرے گا } ( مسند احمد )
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں

معاشرتی لحاظ سے پوری تاریخ میں ایسے بہت کم موضوع پائے جاتے ہیں جو عورت کی شخصیت یا ہویت کے موضوع کی بہ نسبت زیادہ تنقید وغیرہ کا نشانہ بنے ہوں یا ان کے بارے میں متعدد اور مختلف تشریحات کی گئی ہوں ابھی بھی یورپی اور مشرقی دنیا میں عورت کے بارے میں غلط، بے ڈھنگ اور گمراہ کن نظریات پائے جاتے ہیں ان سب میں صرف انبیائ ، اوصیائ اور اہل حق کا واحد مکتب ہے کہ جس میں : ’’من اخلاق الانبیاء حبُّ النساء؛ عورتوں سے محبت انبیائ کے اخلاق میں سے ہے‘‘(1) کے ذریعہ افراط و تفریط کے بغیر وحی اور خدا سے رابطہ کے ذریعہ اچھی طرح سے عورت کی منزلت کو بیان کیا جارہا ہے .اور اس کی صاف وشفاف اورہر قسمی تحریف کے بغیر مکمل صورت اور پیغمبر اکرم اور اہل بیت کی صحیح سنت کے ذریعے عورت کی شخصیت، قدر ومنزلت اور اس کی حیثیت کو بیان کیا ہے قرآن و سنت کی بنیاد پر، عورت کا خلقت اور پیدائش کے لحاظ سے مرد سے کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے، البتہ مرد کے ساتھ بعض چیزوں میں شریک ہونے کے باوجود خدائے متعال کی حکمت اور لطف کی بنا پر بعض چیزوں میں اس کی استعداد، اس کے وظائف اور حقوق وغیرہ مردوں سے مختلف ہیں
قرآن کریم اور سنت سے جو کچھ ہمیں ملتا ہے وہ یہی ہے کہ عورت لطیف اور رحمت ہے. اس کے ساتھ لطف و کرم اور مہربانی کی جائے، اچھا سلوک کیا جائے اس کے ساتھ ساتھ اس کے ظریف اور نازک وجود کی تعریف کی گئی ہے نہج البلاغہ میں تقریباً 25 جگہوں پر خطبوں، خطوط اور کلمات قصار میں عورتوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے(2)جن میں سے چند ایک موارد کو چھوڑ کر باقی ایسی احادیث، جملات یا کلمات ہیں کہ جن کا مطالعہ کرنے سے لوگ ابتدا میں یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ نہج البلاغہ میں عورتوں کے متعلق منفی نظریہ پایا جاتا ہے اور یہی چیز کافی ہے کہ جوانوں اور خواتین کے درمیان نہج البلاغہ کے بارے میں شک و تردید پیدا ہو جائےخاص کر آج کل کے زمانے میں کہ جہاں عورتیں ی، تربیتی، ثقافتی اور اجتماعی امور میں پیش پیش ہیں، اگر ہم اس سلسلے میں ان ابہامات کو دور نہ کرسکیں، ان کے سوالوں کے جواب نہ دے سکیں اور ان شبہات کا جو جوانوں اور خواتین کے ذہنوں میں نہج البلاغہ کی بہ نسبت ایجاد ہوئے ہیں ،کا جواب نہ دے سکیں تو ہمیں ان کے گمراہ اور اسلامی ثقافت سے منحرف رہنے کا شائبہ رہنا چاہیے. اور پھر اس گمراہی اور ضلالت کے ہم خود ہی ذمہ دار ہوں گے اس کے علاوہ ظاہر سی بات ہے کہ آئمہ معصومین خاص کر حضرت امیر المومنین علی کے کلام مبارک کا کوئی تربیتی اثر نہیں ہوگا بلکہ اس طرح کے جوان اور ہمارہ معاشرہ آئمہ کے بارے میں بد ظن ہو کر ان سے دوری اختیار کرے گا اور انہیں اپنے لئے اسوہ اور نمونہ بنانے سے اجتناب کرے.
بقیه ادامه مطلب پر کلک کریں


آخرین مطالب

آخرین جستجو ها

فروشگاه اینترنتی شقایق سیار- جلب رضایت مشتری = کیفیت ، مرغوبیت ، قیمت مناسب کالا- 09357359368 به خرید sarvningwithsworl ictechsawir Eduardo's style قیمت اجاره سند . اجاره وثیقه برای آزادی زندانی . ضمانت دادگاه Charlene's life Whoslesale NHL Toronto Maple Leafs jerseys High Quality, Cozy to Wear. سفر به مشهد فروشگاه سنگ مزار محمود